کھاد کا بحران

1616

عمران خان کی حکومت میں گندم، چینی اور تیل بحران کے بعد گندم کی بوائی کے سیزن میں ملک بھر میں کھاد کی عدم دستیابی اور بلیک فروخت نے ایک اور بحران کو جنم دے دیا ہے۔ 2021ء کے وسط میں جب عالمی منڈی میں ڈی اے پی اور یوریا کھاد کی قیمتوں میں اضافہ ہونے لگا تو وفاقی حکومت نے صورتحال سے نمٹنے کے لیے بروقت اقدامات نہیں کیے اور آنے والے بحران سے نظریں چْرالیں۔
گندم کی بوائی سے پہلے زمین کو قابل کاشت بنانے کے لیے فی ایکڑ ڈی اے پی کھاد کے 50 کلوگرام کی کم از کم ایک بوری کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ فصل کی بڑھوتری کے دوران یوریا کھاد کی 3 بوریوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ کھاد کی مختلف اقسام خصوصاً ڈی اے پی، نائٹرو فاس اور یوریا کھاد کی مصنوعی قلت، ذخیرہ اندوزی اور بلیک فروخت کی بدولت ملک بھر میں کھاد کی قیمتیں عام کاشتکار کی پہنچ سے دور ہوگئیں۔ کھاد کی قیمتوں میں دیکھتے ہی دیکھتے حیرت انگیز اضافہ ہوگیا۔ اس وقت ڈی اے پی کھاد کی 3,500 روپے کی ایک بوری 9,500 روپے، نائٹروفاس کھاد کی 2,500روپے کی ایک بوری 6,100 روپے اور یوریا کھاد کی 50 کلوگرام کی 1,500 روپے ایک بوری بڑھ کر3,000 روپے میں فروخت ہو رہی ہے۔ پنجاب لوک سجاگ کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں ڈی اے پی کی 50 کلوگرام کی بوری کی قیمت 12 سو بھارتی روپے ہے جو 2,750روپے پاکستانی بنتی ہے۔
پاکستان میں ہر سال اوسطاً 24 لاکھ ٹن ڈی اے پی کھاد استعمال ہوتی ہے۔ ڈی اے پی کھاد 40 فی صد ملک میں بنائی جاتی ہے جبکہ 60 فی صد درآمد کی جاتی ہے۔ لیکن مقامی قیمت کے مقابلے میں بین الاقوامی قیمتوں میں تقریباً 80 فی صد کے فرق کی وجہ سے بڑی مقدار میں کھاد پڑوسی ممالک خصوصاً وسطی ایشیائی ممالک اور افغانستان کو اسمگل ہونا شروع ہوگئی ہے۔ مگر یہ صرف ایک وجہ نہیں ہے بلکہ اصل وجہ رواںسیزن میں اسمگلنگ میں اضافہ کے ساتھ مارکیٹ سے کھاد کا غائب ہوجانا ہے۔ مافیاز کی ناجائز ذخیرہ اندوزی سے اندرونِ ملک کھاد نایاب اور اس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو گیا۔ یوریا کھاد کی بڑے پیمانے پر اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی سے سندھ اور پنجاب کے کاشتکاروں کو مطلوبہ مقدار میں کھاد دستیاب نہیں۔
صوبہ سندھ میں 50 کلوگرام کی1.45 کروڑ بوریوں کی ضرورت تھی لیکن رواں سال اندرونِ ملک کھاد کی پیداوار کا بھی بڑا حصہ ذخیرہ اندوزی کی نذر ہو گیا۔ محکمہ زراعت سندھ کے مطابق صوبہ سندھ کے 23 اضلاع کو 2 لاکھ 68 ہزار 574ٹن یوریا کھاد یعنی 50 لاکھ سے زائد بوریوں کی کمی کا سامنا ہے۔ جس میں سے 50 کلوگرام کی 80 لاکھ یوریا کھاد کی بوریاں گندم کی فصل اور10 لاکھ بوریاں سورج مکھی، سرسوں سمیت ربیع کی دیگر فصلوں کے لیے درکار ہیں۔ اگر کھاد کی کمی برقرار رہی تو خریف کی فصل پر بھی اس کے مْضر اثرات مرتب ہوں گے۔ اسی طرح فی ایکڑ کم پیداوار کی صورت میں حکومت کو گندم اور دوسری زرعی اجناس درآمد کرنا پڑیں گی۔ تو ملک میں غذائی اجناس کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو گا، جس کے نتیجے میں مہنگائی کا نیا طوفان آجائے گا۔ بنا بریں جب کاشتکار دوگنا قیمت پر کھاد خرید کر فصلیں کاشت کریں گے تو حکومت کے لیے بھی بنیادی اشیائے خورو نوش کی قیمتوں کو قابو کرنا مشکل ہو جائے گا۔
جنوبی پنجاب میں بھی ڈی اے پی کھاد کی ایک بوری 10 ہزار روپے اور یوریا کھادکی ایک بوری 3,000روپے میں بیچی جا رہی ہے۔ ایک ایکڑ گندم کاشت کرنے کے لیے درکار کھاد پر 22 ہزار پانچ سو روپے خرچہ آتا ہے۔ اگرکھاد استعمال نہ کی جائے تو گندم کی فی ایکڑ پیداوار 10 من کم ہوجاتی ہے۔ جے آئی کسان کے مرکزی صدر شوکت علی چدھڑ کا کہنا ہے کہ کھاد کے کم استعمال سے اس سال گندم کی پیداوار میں 30 فی صد تک کمی متوقع ہے۔ جس کا کسان کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت پر بھی بْرا اثر پڑے گا۔
یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ کھاد کے استعمال میں کمی کے باوجود کھاد بنانے والی کمپنیوں کے منافع میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ عالمی منڈیوں میں زرعی اجناس کی قیمتوں کا جائزہ لینے والے برطانوی ادارے آرگس (Argus)کی اگست 2021ء کی شائع شدہ تجزیاتی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی تین بڑی کھاد کمپنیوں اینگرو فرٹیلائزر کمپنی، فوجی فرٹیلائزر کمپنی اور فوجی فرٹیلائزر بن قاسم لمیٹڈ نے 2021ء کی پہلی ششماہی میں ڈی اے پی بہت کم فروخت کی مگر ان کمپنیوں نے اس پیداواری اخراجات کے مقابلے میںکہیں زیادہ منافع کمایا۔ رپورٹ کے مطابق فوجی فرٹیلائزر بن قاسم لمیٹڈ کے منافع میں پچھلے سال کی نسبت 100 فی صد اور اینگرو کے منافع میں 53 فی صد اضافہ ہوا ہے۔
گندم اور چینی کے بحرانوں کی طرح یوریا کھاد کے بحران میں بھی وفاقی حکومت اور ریاستی مشینری نے دہرا کھیل کھیلاہے۔ ایک طرف وفاقی اور پنجاب اور سندھ کی صوبائی حکومتوں نے کھاد کے بحران پر نظریں چْرا کر اسمگلروں اور ذخیرہ اندوزوں کے لیے سہولت کاری کی تو دوسری طرف اْس نے کھاد مافیاز کے خلاف نماشی کارروائی کا ڈھونگ بھی رچایا۔ کھاد کے اِس نئے بحران کی صرف پی ٹی آئی کی وفاقی اور پنجاب حکومت ذمے دار نہیں بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت بھی برابر ذمے دار ہے۔ تینوں حکومتوں میں موجود مفاد پرست سیاست دانوں اور بیوروکریٹس نے عوام کی زندگی اجرین کر دی ہے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کے علاوہ کسی قومی سیاسی رہنما نے کسانوں اور عوام کو پہنچنے والے نقصان پر اظہار خیال نہیں کیا۔ حکومت ِ پاکستان، حکومت ِ سندھ اور حکومت پنجاب کا فرض ہے کہ وہ ایمرجنسی اقدامات کر کے کھاد کے تازہ بحران پر قابوں پائے۔ ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کارروائی کر کے کھاد کی فراوانی کومارکیٹ میں یقینی بنائے۔