اطراف میرے لپٹی ہیں زنجیر کی آنکھیں

469

داغ دل کشمیر کا گجرات کا دل درد ناک
حادثہ کوئی کہاں ہے چھ دسمبر سے الگ
یہ شعر کلیم اختر کا ہے۔ جو ہندوستان بہار کے صوبے کے شاعر ہیں۔ گویا اُن کی بات اندر کے آدمی کی بات ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بھارت میں کشمیر اور گجرات ہی نہیں ہر وہ حادثہ جو مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے بپا کیا جارہا ہے اس کا سرا چھے دسمبر سے ملتا ہے۔ اب لوگ سوال کریں گے کہ یہ چھے دسمبر کے دن بھارت میں کیا حادثہ پیش آیا تھا کہ وہ اتنا خطرناک اور اثر انگیز تھا کہ اس کے اثرات وقت کے ساتھ گہرے سے گہرے ہوتے چلے جارہے ہیں۔ تو یہ چھے دسمبر 1992ء کا دن تھا جب بابری مسجد کو منہدم کیا گیا، آج تیس سال سے زیادہ ہوگئے اس حادثے کے اثرات میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ یہ بھارت کی تاریخ کا سیاہ دن تھا جب فرقہ واریت کا زہر حکومت کی سطح پر پھیلایا گیا۔ سیکولر اور لبرل نقاب تار تار ہوا۔ بابری مسجد کے ساتھ کتنی ہی مساجد کو نقصان پہنچایا گیا یوں تو بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات کا برپا ہونا کوئی نئی بات نہیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو بھارت کے اعداد و شمار کے مطابق آزادی کے بعد بھارت کے طول و عرض میں 58400 فسادات پھوٹے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو بھارت بتاتا ہے کہ 2008ء سے 2018ء تک دس سال کے دوران کم و بیش 8 ہزار فسادات ریکارڈ کیے گئے۔ ایک طرف سے بھارت میں ہر روز دو فسادات ہوئے۔ ان فسادات میں پولیس اور دیگر سیکورٹی فورسز فسادات کنٹرول کرنے کے بجائے بلوائیوں کا ساتھ دے کر مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہیں یا پھر خاموش تماشائی بن کر دیکھتے ہیں۔ ایک سینئر پولیس افسر وبھوتی نارائن رائے خود اس کا اعتراف کرتا ہے۔ اس نے فسادات کے بارے میں کئی تحقیقاتی لکھے ہیں۔ اس کی تحقیق کے مطابق مسلمان فسادات کے دوران پولیس کو دشمن سمجھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاں مسلمان ہی کو فسادات میں شدید جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے وہاں وہ پولیس کے قہر کا نشانہ بھی بن جاتے ہیں۔ مسلمان نوجوانوں کو فسادات سے نمٹنے کے نام پر گرفتار کرلیا جاتا ہے اور پھر فسادیوں سے تصفیہ کرنے پر مجبور کرکے رہا کیا جاتا ہے۔
امریکا کے مذہبی آزادی پر نظر رکھنے والے ادارے یونائٹیڈ اسٹیٹس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجئس فریڈم نے بھارت سے متعلق ایک رپورٹ جو 2020ء میں امریکا سے شائع ہوئی اس میں بھارتی حکومت سے کہا کہ وہ مسلمانوںکو نشانہ بنانے کے بجائے انہیں اپنے حقوق کے استعمال کی آزادی دے۔ اس ادارے نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا کہ مودی کی ہندو قوم پرست حکومت نے اقلیتوں کے خلاف تشدد کی کھلی چھوٹ اور ان کے مذہبی مقامات کو بلا روک ٹوک نشانہ بنانے کی اجازت دے دی ہے۔ وہ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز اور تشدد کو بھرکانے والے بیانات کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کررہی ہے بلکہ اس کے رہنما خود بھی اس میں ملوث ہیں۔ پچھلے دنوں ہی آسام کے وزیراعلیٰ نے بیان دیا کہ ’’انہیں ایک ایسے بھارت کی تعمیر کرنی ہے جس میں کسی وارنگ زیب کی جگہ نہیں ہو، کسی بابر کی جگہ نہیں ہو، کسی نظام کی تاریخ نہیں پڑھی جائے بلکہ ہمارے اپنے رہنمائوں کی تاریخ پڑھائی جائے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جیسے کشمیر کی دفعہ 370 کا خاتمہ ہوگیا، جیسے رام مندر کی تعمیر کا کام شروع ہوگیا اسی طرح اورنگ زیب بابر اور نظام کا نام و نشان بھی مٹ جائے گا۔ (اگرچہ ان کا یہ بیان خود ظاہر کررہا ہے کہ اورنگ زیب بابر اور نظام کو مٹانا ممکن نہیں)۔
بی جے پی کے ایسے نفرت انگیز بیانات کے خلاف بھارت کے ہی ایک ادارے ’’انڈین انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ‘‘ کے طلبہ اور اساتذہ نے نریندر مودی کو خط لکھ کر خبردار کیا ہے کہ ’’آپ کی اس نفرت انگیز مہم کے خلاف خاموشی ایسی آوازوں کو حوصلہ دے رہی ہیں۔ یہ نفرت سے بھری آوازیں ملک کی یکجہتی اور سالمیت کے لیے خطرہ ہے‘‘۔ بھارت کے نوبل انعام یافتہ امرتیا سین کہتے ہیں کہ سیکولر بھارتی آئین کا مستقبل خطرے میں ہے۔ اس کے باوجود بھارتی حکومت کی ہمت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ بھارت کی مرکزی وزارت تعلیم کی جانب سے مدرسوں میں ہندوئوں کی کتابیں رامائن اور گیتا کو نصاب میں لازمی شامل کرنے کا فیصلہ دیا ہے۔ مودی حکومت کا یہ فیصلہ بھارت کو ہندوتوا کے سانچے میں ڈھالنے کے حوالے سے اہم قدم ہے۔ تا کہ مسلم طلبہ کی ایک خاص نہج سے ذہن سازی کی جاسکے اور انہیں ہندوتوا میں ضم کیا جاسکے۔ ایک طرف بھارت مسلمانوں کو فسادات کے ذریعے ختم کرنے کا عزم کررہا ہے، دوسری طرف کشمیر میں نئے سال کے آغاز ہی میں بھارتی فوج کئی جھڑپوں میں کشمیری نوجوانوں کو خون سے نہلا چکی ہے۔ لیکن ہمارے ارباب اقتدار کبھی کبھی نیند سے اُٹھ کر ایک بیان دے دینا کافی سمجھتے ہیں۔ یوں بقول کلیم اختر کہ
نم دیدہ ہیں معصوم سی کشمیر کی آنکھیں
حسرت سے انہیں تکتی ہیں تدبیر کی آنکھیں
زنداں کے غم و درد کا احساس ہے ان کو
اطراف مرے لپٹی ہیں زنجیر کی آنکھیں
تدبیر کے میدان میں ناکامی سے تیری
مایوس ہوئی جاتیں ہیں تقدیر کی آنکھیں