شہر کی تہذیبی روایت کو زندہ کرتا ’’دھرنا‘‘

581

ملک عزیز میں اس وقت سیاسی ماحول عجیب سا مکدر ہوا ہے۔ سیاسی طوفانِ بدتمیزی غلاظت ہی غلاظت اْگل رہا ہے اور اس وقت ایک صاف ستھری سیاست کا ایسا کال پڑا ہے کہ بڑے بڑے دیوقامت سیاست دانوں میں بھی یہ صفت عنقا ہے۔ سیاسی کارکن سے لے کر تمام چھوٹے بڑے رہنما اپنے قول اور فعل کے ساتھ ایک دوسرے سے اس بات پر بازی لے جانا چاہتے ہیں کہ ان میں کون زیادہ مکاری کے ساتھ خود کو معصوم ثابت کرکے دوسرے کو ذلیل کرسکتا ہے۔ سیاسی مداریوں کے بیچ اس نورا کشتی سے جہاں ملک اضطراب وپریشانیوں اور مسائل کا شکار ہے، وہیں اخلاقی اقداریں اور تہذیبی روایات کہیں دم توڑتی نظر آرہی ہیں۔ ایسے میں آئیے آپ کو سندھ کے دارالحکومت کراچی میں موجود سندھ اسمبلی لیے چلتے ہیں، جہاں سندھ کے حکمرانوں کے سامنے مظاہرین احتجاجی مظاہرہ کررہے ہیں اور دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ یہ دھرنا اس بات پر دیا جارہا ہے کہ سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی نے اپنی عددی اکثریت کی بنیاد پر ایک ایسا بل منظور کیا ہے کہ جس کے نتیجے میں بلدیاتی حکومت کے بہت سارے اختیارات سندھ حکومت کے پاس چلے گئے ہیں۔
سندھ حکومت کے نئے قانون کے بل میں جو محکمے شہری حکومت سے چھین لیے گئے ان میں۔۔۔ کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج، عباسی اسپتال، سوبھراج اسپتال، سرفراز اسپتال، اسپنسر اسپتال، لیپروسی اسپتال اور کے ایم سی کے تحت چلنے والے دیگر ادارے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ دودھ سپلائی اسکیم، غیر منقولہ جائداد کا ٹیکس، پیدائش و اموات، شادیوں کے سرٹیفیکٹ، بنیادی صحت کے مراکز(اسپتال، ڈسپنسرز، میڈیکل ایڈ) کو بھی سندھ حکومت کے ماتحت کردیا گیا ہے۔ صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ میڈیکل ایجوکیشن، پرائمری تعلیم، لازمی تعلیم کے امور اور فوڈ ڈرنکس کے متعلق معاملات پر بھی قبضہ کرلیا گیا۔
سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ ان اداروں کو بہتر بنانے کے لیے سندھ حکومت کے حوالے کیا گیا ہے، جبکہ کراچی اور سندھ میں بسنے والے کئی کروڑ لوگ یہ بات سمجھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کو مسلسل حکومت سنبھالے تقریباً 14 برس گزرچکے ہیں ، اس عرصے کے دوران سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں کا جو حشر نشر ہوا ہے، واللہ کوئی اپنے جانوروں سے بھی ایسا سلوک روا نہ رکھے جو اس دھرتی پر انسانوں کے ساتھ روا رکھا گیا۔
خیر! قصہ یہ ہے کہ اس دھرنے میں کراچی کا اصلی رنگ نظر آرہا ہے، یہ رنگ جانا پہچانا ہے، جو لوگ اس شہر سے وابستہ ہیں یا وابستہ رہے ہیں ، وہ اس رنگ کا تذکرہ بڑے دردِ دل اور حسرت سے کرتے ہیں۔ وہ لیاقت آباد کی شامیں ہوں یا ناظم آباد کے رتجگے۔ ملیر کے مشاعرے ہوں یا پھرنوجوانوں کی سرگرمیاں، جو تعمیری ہوا کرتی تھیں کہ بزرگ بھی ان کی سرگرمیوں کو سراہتے تھے۔ ایک دوسرے سے اختلاف تھا لیکن انتقام نہ تھا۔ کسی کا غیر طبعی موت مرجانا بہت بڑی بات ہوا کرتی تھی۔ تعلیمی سرگرمیوں سے جامعات اور کالجز آباد رہتے تھے۔ جامعات میں ہونے والے مشاعرے نوجوانوں کے تہذیبی رویوں کی غماض ہوا کرتی تھیں۔ اب آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ یہاں کس رنگ کی بات ہورہی ہے۔ یہ رنگ دھرنے میں نظر آرہا ہے۔ لوگ سراپا احتجاج ہیں، بیٹھے ہیں۔ سردی میں آگ تاپ رہے ہیں، اچھے اور بھلے وقتوں کو یاد کررہے ہیں اور بھلا کیوں نا یاد کریں کہ اس شہر سے اْنہیں محبت ہے۔ ایک اْنسیت ہے جو پرانے وقت کو یاد کرکے دل کے تاروں کو چھیڑ دیتے ہیں۔
دھرنے میں کھیل کھیلے جارہے ہیں، کرکٹ کا میچ ہورہا ہے، چند نوجوان باکسرز باکسنگ کررہے ہیں۔ بالکل اصلی والی باکسنگ۔ دھرنے کے شرکا محظوظ ہورہے ہیں اور اس سخت موسم کی سختیوں کو بھلا بیٹھے ہیں۔ بیڈمنٹن، فٹبال کے ذوق رکھنے والے شرکا ان کھیلوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ یہ صرف کھیل نہیں ہے، یہ بے حس حکمرانوں کے جگانے کے لیے اپنی ہمت کو مجتمع کررہے ہیں۔ وہ ان کی ہمت توڑنا چاہتے ہیں۔ وہ ان شرکا کو جھکانا چاہتے ہیں لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ یہاں مشاعرہ بھی چل رہا ہے، بڑے شعرا بھی نظرآرہے ہیں۔ نوجوان شاعر بھی ہیں۔ عمران نرمی نظم سنارہے ہیں، آپ بھی سنیے!
میں روشنی کا شہر ہوں، تاریکیوں میں کیوں
پستا ہوں اختیار کی باریکیوں میں کیوں
میرے تو سارے خوابوں پہ پانی ہی پھر گیا
خوشبو میں نہاتا تھا، کیچڑ میں گر گیا
سڑکیں بھی میرے دل کی طرح ٹوٹی پھوٹی ہیں
ہم بے بسوں سے بس بھی یہاں روٹھی روٹھی ہیں
تیرا کمائو پوت، تیرا پیارا دکھ میں ہے
اے دیس تیرا سب سے بڑا بیٹا دکھ میں ہے
میری گزارشیں نہ سنو، التجا سنو
سننے کی تاب ہے تو میرا مرثیہ سنو
اب چیخ بن کے اْبھری ہے میری سدا سنو
میں ہوں کراچی آئو میری کرچیاں سنو
کراچی کا نوحہ ہے۔ ہر کوئی کراچی کی بے بسی، اور طاقت وروں کے رویوں پر رورہا ہے۔ بارش ہورہی ہے لیکن سب بیٹھے ہیں۔ شعر سے جذبات کو گرما رہے ہیں۔ اجمل سراج بھی ہیں، علا الدین خانزادہ بھی موجود ہیں۔ وہ بھی کراچی کا ذکر کررہے ہیں۔ پرانے کراچی کو یاد کررہے ہیں۔ کیا نیا کراچی کو دوبارہ پانا مشکل ہے۔ کیا یہ ممکن ہوپائے گا؟ جذبات سے تمتماتے، تہذیب کے پرانے قمقموں کو دوبارہ روشن کرتے ان نوجوانوں کی آنکھوں میں ایک شائستہ پروقار کراچی نظرآرہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ دھرنا ایک طویل مسافت کو بہت جلد عبور کرگیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس دھرنے کے انتخابات پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے، انتخابات ایک طرف، لیکن یہ دھرنا شہر کے بلند سماجی شعور کا ثبوت دے رہا ہے۔ کاش کہ یہ روایت ہمیں دیگر سیاسی جماعتوں میں بھی نظرآئے۔