سعودی عرب میں مقیم پاکستا نی کمیونٹی کا ’’سانحہ مری‘‘ پراظہار افسوس

345
محمد مبشر انوار، عنبرین فیض النجدی، ملک شمس الدین الطاف، ناصر حبیب، عابد شمعون چاند

7جنوری 2022ء کو معروف سیاحتی مقام مری میں ایک برفانی طوفان آیا، جس میں مختلف علاقوں سے سیاحت کے لیے آنے والے 23 شہری جاں بحق ہوگئے۔ اس افسوسناک واقعے پر سعودی عرب میں مقیم پاکستا نی کمیونٹی نے متعلقہ خاندانوں سےاظہارافسوس کرتے ہوئے سانحہ پر نمائندہ جسارت سید مسرت خلیل کو اپنے تاثرات سے آگاہ کیا، جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔
محمد مبشرانوار: ریاض سے معروف صحافی اور کالم نگار محمد مبشر انوار نے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آہ! اس قوم پر بیتنے والے نوحوں کا مرثیہ کس طرح لکھوں؟ کس کے نام لکھوں؟ کس کو ذمے دار ٹھیراؤں؟۔ کون ہے جو اپنی غلطی کو تسلیم کرنے کی ہمت اوراخلاقی جرأت رکھتا ہے؟ جمہوریت کے دلداہ، جمہوریت کی بنیادی اساس ہی سے بے بہرہ ہیں۔ جمہور کے حقوق کو غصب کرنے والے ہیں۔ ذاتی نمود و نمائش اور اختیار سے تجاوز کرنے والے ہیں۔ کس کو ذمے دار ٹھیراؤں؟ حزب اقتدار و حزب اختلاف ایک دوسرے پر برتری دکھانے یا تنقید کرنے کے سوا کوئی تعمیری کام کرتی نظر نہیں آتی۔ اقتدار کے حصول کی خاطر فقط تنقید برائے تنقید، حزب اختلاف حکومت کی نااہلی پر برستی نظر آتی ہے تو پی ٹی آئی والے سیاسی مخالفین کی کرپشن کو روتے نظر آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ماضی کے حکمرانوں کی غلطیاں اور موجودہ حکومت کی نااہلی دونوں ہی سوالیہ نشان ہیں جب کہ اس سب کے درمیان عوام بری طرح سے پس رہے ہیں۔ کیا یہ حکومت اور ماتحت ریاستی مشینری کا فرض نہیں تھا کہ گنجائش سے زیادہ گاڑیوں کا داخلہ عام حالات میں بھی نہ ہوتا کجا جب محکمہ موسمیات کی تنبیہ کہ شدید برفانی طوفان متوقع ہے۔ اس پر بھی کسی ادارے نے ہوش کے ناخن نہ لیے اور گاڑیوں کا داخلہ روکنے کی کوشش نہ کی؟ علاوہ ازیں!متعلقہ اداروں نے برف ہٹانے کی مشینری تک مختلف جگہوں پر پہنچانے سے احتراز کیوں برتا۔ کیا یہ ریاستی مشینری اور متعلقہ حکام کی بد نیتی یا مجرمانہ غفلت نہیں؟ اس پر کم و بیش دو درجن جانیں گنوانے کے بعد کارروائی کا کیافائدہ ہو گا؟ کیا یہ ریاستی مشینری اس ملک کے بہترین دماغوں پر مشتمل، عوام کی خدمت کے لیے منتخب نہیں ہوتے یا ان کا کام صرف اشرافیہ اور بااثر افراد کے لیے بہترین مواقع تلاش کرکےمال بنانے کا وسیلہ اور حصہ داربننا اور نتیجے میں اپنی تقرری، تعیناتی و ترقی ہی مقصد ہے؟
محمد مبشر انوار نے مزید کہا کہ میڈیا کی تو خیر یہ ذمے داری ہے کہ ایسی خبروں کو عوام کے ساتھ حکمرانوں تک بھی پہنچائیں لیکن ذرا سوچئے کہ کیا صرف منفی خبروں کو پھیلانا اور سنسنی پھیلانا ہی میڈیا کا کام ہے؟ کیا میڈیا کی اتنی ہی ذمے داری ہے کہ وقوع کے بعد لکیر پیٹتا نظر آئے اور سانحہ کے بعد مرچ مصالحہ لگا کر اپنی دکانداری چمکائے؟ میڈیا کے پاس بھی یہ سب خبریں تو موجود ہوتی ہیں، کس رپورٹر نے سانحہ سے قبل استعداد سے زیادہ گاڑیوں کے داخلے کی خبر بریک کی؟ کسی ایک بھی رپورٹر نے متوقع طوفان کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے ادارے کے ذمے داروں کو اس کے حوالے سے مطلع کیا؟ میڈیا میں یہ سب رپورٹس اس سانحہ کے بعد بریک ہوئیں، جب پانی سر سے اونچا ہو گیا۔ ہرسال مری سے ایسی منفی خبریں مسلسل رپورٹ ہو رہی ہیں کہ ہوٹلز والوں نے من مانے کرائے وصول کیے، گاڑیوں کی پارکنگ کے بے تحاشا پیسے وصول کیے، سیاحوں سے مار پیٹ کی، بد اخلاقی کے بد ترین مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ہرصورت سیاحوں کو لوٹنے کی خبریں چلتی ہیں لیکن ہر سال یہی کام ہوتا ہے۔ قصوروار / ذمے دار کون ہے؟ تسلیم کہ دنیا بھر میں سیاحتی مقامات پر ایسے واقعات ہوتے ہیں لیکن اس تواترسے ایسا کرنا پیشہ ورانہ بد دیانتی کے زمرے میں آتا ہے۔ یہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ بدمعاشی مٹھی بھر عناصر ہی کرتے ہیں لیکن بدنام پوری کمیونٹی ہو جاتی ہے جبکہ اکثریت خوف خدا رکھنے والے بھی موجود ہوتے ہیں، جواپنی حیثیت و استعداد کے مطابق مجبوروں کی مدد کرتے بھی نظر آتے ہیں۔ میڈیا کو احساس ذمے داری کے ساتھ تصویر کے دونوں رخ دکھانے چاہییں لیکن بد قسمتی سے زیادہ کوریج ان مٹھی بھرعناصرکوملتی ہے جو عمومی تاثر کو گہنا دیتے ہیں اور سیاحتی صنعت کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔ سیاحتی صنعت کو فروغ دینے کے لیے لازم ہے کہ امن و امان کے ساتھ سیاحوں کی قیمت خرید کے علاوہ یہاں کے کاروباری طبقے کے مفادات کا خیال رکھتے ہوئے باقاعدہ نرخ مقرر کیے جائیں اور ان پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے۔ دیگر امور جن میں استعداد کے مطابق گاڑیوں / سیاحوں کے داخلے کو ہر مرحلے میں پرکھا جائے۔ مربوط ڈیٹا کی مدد سے اس امر کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ مری میں بد اخلاقی کرنے والوں، مجبوروں سے ناجائز فائدہ اٹھانے والوں کو قرار واقعی سزا دے کر ہی سیاحت کو فروغ دیا جا سکتا ہے، وگرنہ اس طرح کے عمل سے سیاحت زوال کا شکار ہو جائے گی۔ یقینی طور پر مقامی لوگوں کو بھی اپنے رویے درست کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ پورے سال کی روٹیاں ایک دن میں یا چند ماہ میں اکٹھی کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ پرتوکل ہی ختم کر دیں اور مہمانوں سے بد اخلاقی سے پیش آئیں۔عنبرین فیض النجدی: ریاض سے عنبرین فیض احمد النجدی کہتی ہیں کہ مجھے مری میں سیاحوں کے جاں بحق ہونے والے واقعے پر انتہائی افسوس ہے اور ہم جاں بحق افراد کے خاندان کے دکھوں میں برابر کے شریک ہیں۔ گنجائش سے زیادہ سیاحوں کی آمد سے یہ افسوس ناک صورتحال پیدا ہوئی اور درجنوں جانوں کے ضیاع ہونے کا باعث بنا۔ سیاحوں کی ہلاکتوں نے ملک بھر میں لوگوں کے دلوں کو غمزدہ کردیا۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سانحہ کیوں رونما ہوا۔ یہ واقعہ ایک دم نہیں ہوا۔ گزشتہ دنوں محکمہ موسمیات نے مری میں کئی روز تک جاری رہنے والے برفانی طوفان کی پیش گوئی کی تھی مگر اس پر نہ حکومت اور نہ ہی سیاحوں نے کان دھرے اور چل پڑے موسم کا مزا لینے۔ انہیں کیا معلوم کہ یہ ان کا آخری سفرثابت ہوگا۔ اسکولوں میں چھٹیوں کے باعث ملک بھر سے بڑی تعداد میں سیاحوں نے موسم سے لطف اندوز ہونے کے لیے مری کا رُخ کیا۔ بلکہ ہر گزرتے دنوں کے ساتھ سیاحوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ اس دوران نہ انتظامیہ اور نہ ہی حکومت نے لوگوں کو مری جانے سے روکنے کے لیے کوئی اقدامات کیے۔ وزیراطلاعات فواد چودھری نے اپنے ٹوئٹر پرلکھا کہ مری میں ایک لاکھ کے قریب گاڑیاں داخل ہوچکی ہیں، جو ایک اچھی خبر ہے، تاہم مری انتظامیہ کے مطابق مری میں صرف 4 ہزار گاڑیوں کی پارکنگ موجود ہے۔ اور تو اور اس برفانی طوفان میں ہوٹلوں اور اقامت گاہوں کے کرایے کئی گنا اوپر چلے گئے۔ یعنی ان کے کرائے آسمان سے باتیں کرنے لگے۔ جس کی وجہ سے اکثر سیاحوں کو اس برفانی طوفان میں اپنی اپنی گاڑیوں میں رات بسر کرنا پڑی۔ بےشک اس سال کئی کمپنیوں نے کئی ارب روپے کمائے ہوں گے، مگر ایسا سانحہ کبھی رونما ہی نہیں ہوا تھا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب انتظامیہ کومعاملے کی سنگینی کا احساس ہوا اورمری جانے والے راستے بند کردیے مگراس وقت تک کافی دیر ہوچکی تھی۔ مری کی طرف جانے والی سڑکیں بھی کافی تنگ ہیں۔اس کے باوجود حکومت اور انتظامیہ خراب خرگوش کی نیند لے رہی تھی۔ اس دوران گاڑیوں میں بیٹھے لوگوں نے برفانی طوفان سے بچنے کے لیے گاڑیوں کے ہیٹرآن کرکے شیشے بند کردیے، جس سے آکسیجن کی کمی پیدا ہوگئی، جو کئی ہلاکتوں کا باعث بنی۔اس برفانی طوفان کے بعد مری میں گاڑیاں اجتماعی قبروں کا منظر پیش کر رہی تھیں۔ مری میں کبھی ایسا سانحہ دیکھنے کو نہیں ملا اور نہ ہی ایسی بدنظمی بھی کبھی دیکھنے میں آئی۔ کاش انتظامیہ کو پہلے ہی حالات کی سنگینی کا احساس ہوجاتا تو آج اتنی جانوں کا ضیاع نہیں ہوتا۔ جہاں تک سوال میڈیا کوریج کا ہے، تو میڈیا کا کام صرف واقعہ ہونے کے بعد کی رپورٹنگ کرنا نہیں ہے۔ بلکہ صورت حال کے تناظر میں پہلے سے انتباہی اعلانات کرنا اور بنیادی سہولیات کی عدم یا نامناسب دستیابی سے انتظامیہ کو آگاہ کرنا بھی میڈیا کی ذمے داری ہے۔
ملک شمس الدین الطاف: جدہ کے معروف سیاسی اور سماجی رہنما ملک شمس الدین الطاف نے کہا کہ جن کے عزیز و اقارب مری کی برفباری میں لقمہ اجل بن گئے، وہ صبر کریں۔ الله تعالیٰ مرحومین کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ مری حادثے کے وقت مری میں دو گورنر ہاؤس، ایک وزیر اعلیٰ ہاؤس، بیس آرمی ریسٹ ہاؤسز خالی تھے، لیکن پھر بھی 22 سے زائد لوگ گاڑیوں میں بند ہو کر ٹھنڈ سے مر گئے۔ سننے میں یہ بھی آیا کہ مری میں حکومتی اداروں کے پاس سڑک سے برف ہٹانے کے لیے کوئی مشینری بھی میسرنہیں تھی اور اگر مشینری میسر تھی تو وہاں کے ذمے دار اداروں نے سٹرک پر گری ہوئی برف کی صفائی کے لیے بروقت اقدامات کیوں نہ کیے؟۔ وہاں بھی آخرکارپاک فوج کے جوانوں نے اپنی ہیوی مشینری کے ذریعے سڑکوں سے برف ہٹائی اور شاہراہیں کلیئر کیں۔ سانحۂ مری میں سیاحوں کی اموات کے بعد وزیر داخله نے مقامی لوگوں کو سیاحوں کے لیے کمبل اور کھانے پینے کا سامان فراہم کرنے کی اپیل کر دی۔ یہ حیران کن اپیل تھی ۔ حکومتی ذمے داریوں کو پورا کرنے کے لیے غریب عوام سے اپیل کرنا اس بات کا کھلا إعلان تھا کہ حکومت کے پاس ایسے ناگہانی حالات سے نبرد آزما ہونے کے لیے کوئی لائحہ عمل نہ تھا۔ کیا ایسی بے بس ہوتی ہے حکومت؟ ترقی یافتہ ممالک میں بھی برفانی طوفان کی پیشگوئی پر ہر چیز بند کر دی جاتی ہے، لیکن یہاں تو ہمدرد وزرا اس قیامت خیز قدرتی آفت کے بعد بھی آج تک صرف زبانی کلامی بیان بازی ہی کر رہے ہیں۔ اگرحکومت کے پاس سیاحوں کی حفاظت کے لیے کوئی پیشگی حفاظتی ایمرجنسی انتظامات اور بندوبست نہیں ہیں تو سیاحوں کو سیاحت کے لیے سرکاری إعلانات کے ذریعے رغبت دلانے اور مدعو کرنے کا ڈراما بند کیا جانا چاہیے۔
ہمارا مذہب اسلام کہتا ہے کہ تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، جسم کے کسی حصے میں درد ہو اس سے پورا جسم متاثر ہوتا ہے۔ پھر بھی ضرورت، درد اور کرب کی گھڑی میں مری کے ہوٹل والے کس مذہب کے پیرو کار بنے ہوئے تھے، جو بجائے نرم خو ہونے کے پتھر دل بن گئے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ غلطیوں سے سبق سیکھے اور آئندہ کے لیے ان خامیوں پر نظرثانی کر کے عوام اور سیاحت کی بہتری کے لیے فول پروف انتظامات اور قوانین فوری وضع کرے تاکہ اس طرح کے واقعات دوبارہ نہ ہو سکیں۔
وسیم خان: پاک یونائٹیڈ میڈیا فورم کے صدر نے مری سانحے پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ المناک انسانی سانحہ پیش آنا اور کئی افراد کا جاں بحق ہونا حکومتی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے سیاحت میں اضافے کا حکومتی پروپیگنڈا سفاکی اور سنگ دلی کی انتہا ہے۔ حکومت مری اور گلیات میں ٹریفک انتظامات کرنے کے قابل نہیں۔ وسیم خان نے متاثرہ خاندانوں سے ان کے پیاروں کے بچھڑ جانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مغفرت اور لواحقین کے لیے صبر کی دعا کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ سانحہ مری میں امدادی سرگرمیوں میں پاک فوج کے جوانوں اور سماجی فلاحی تنظیموں کی اعلیٰ خدمات پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور حکومت پاکستان سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ آئندہ کے لیے ٹھوس اور موثر اقدامات کرے تاکہ سیاحوں کی زندگی محفوظ رہے اور انسانی جانوں کا ضیاع نہ ہو۔
نورخان شنواری: پاکستان مسلم لیگ ن ریاض ریجن کے صدر نور خان شنواری نے سانحہ مری پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے جاں بحق ہونے والے افراد کی مغفرت اور ان کے لواحقین کے لیے صبر کی دعا کرتے ہوئے کہا کہ 22 سے زیادہ افراد کی ہلاکت کی اصل وجہ دراصل حکومتی سرد مہری اور نااہلی ہے۔ جبکہ مشکل کی اس گھڑی میں مقامی انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت اور ہوٹل و پارکنگ مافیا کا بے رحمانہ رویہ بھی اس سانحے کی بڑی وجوہات میں شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو ایسے اقدامات کرنا ہوں گے، جس سے آئندہ مری میں سیاحت کے لیے آنے والوں کے لیے باقاعدہ ایک جدید نظام وضع ہو، جس سے آنے والے سیاحوں کا مکمل ڈیٹا اور دستیاب جگہ کے تناسب سے آمد کا انتظام کیا جا سکے۔
احتشام ارشد نظامی: مجلس محصورین انٹرنیشنل کے چیئرمین نے سانحہ مری پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 6 فٹ برفانی طوفان، تنگ گلیاں، اسلام آباد سے مری تک صرف ایک رویہ سڑک؟ صرف 2 گورنر ہاؤسز ہی نہیں، سابق وزرائے اعظم کی قیام گاہیں، ایک سابق وزیر اعظم کا اصلی گھر اور ان کا اپنا حلقہ ۔ کسی نے مری کو کبھی وسعت نہیں دی۔ پارکنگ کے لیے کوئی عمارت تک نہیں بنائی گئی۔ ایسے میں برفانی طوفان سے ہلاکتوں کا خدشہ کیوں کر نہ ہوا۔ امریکی ریاست ٹیکساس میں پچھلے برس اس سے بہت کم برفباری میں پورا نظام درہم برہم ہو گیا تھا۔ سیکڑوں لوگ لقمہ اجل بن گئے تھے۔ پانی پینے کو نہیں تھا، جم گیا تھا۔ پائپ لائن پھٹ گئی تھی۔ گیس اور بجلی ہفتوں بند رہی تھی۔ سانحہ مری ایک آسمانی آفت تھی۔ ہمیں اللہ سے پناہ مانگنی چاہیے۔ تفریح پر جانے والے گاڑی میں پٹرول ڈالتے ہیں، کمبل اور لحاف نہیں رکھ سکتے تھے۔ کیا معلوم نہیں تھا منفی درجہ حرارت ہے؟ اپنا کیا ہوا بھی تو بھگتنا ہوتا ہے۔

انجینئرخالد جاوید: سانحہ مری پر ہرآنکھ پُرنم اور ہر دل غمزدہ ہے۔ اللہ کریم مرحومین کے درجات بلند فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ میڈیا اور سیاست دانوں نے بھی اس موقع پر قومی مفاد کو نظرانداز کیا، جس کے نتیجے میں ہماری سیاحت پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ہمیں اپنے تمام متعلقہ اداروں کو جدید آلات اورٹیکنالوجی سے لیس کرنا ہوگا اور تربیتی کورسز کا اہتمام کرنا ہوگا تاکہ مستقبل میں ایسی صورت حال سے محفوظ رہا جا سکے اور ہر طرح کی سیاحت کو فروغ حاصل ہو۔
ناصر حبیب: پاک سعودی فرینڈ شپ فورم ریاض سعودی عرب کے مرکزی چیئرمین ناصر حبیب کا کہنا ہے ریاستی اداروں کو موسمی تبدیلی کے تناظر میں پیشگی انتظامات کا جائزہ لینا چاہیے تھا۔ انہوں نے سانحہ مری پر سیاحوں کی اموات کے واقعے پر سوگوار خاندانوں کے ساتھ دلی تعزیت اور ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے مری سانحہ میں جاں بحق ہونے مرحومین کے بلند درجات کے لیے دعا کی اور کہا کہ حکومت پاکستان کی جانب سے مرحومین کے ورثا کو مالی امداد دی جائے، تاہم ساتھ ہی آئندہ کے لیے موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ قیمتی جانوں کا ضیاع نہ ہو سکے۔
ارشد تبسم: پاکستان عوامی تحریک گلف ریجن کے رہنما ارشد تبسم نے سانحہ مری پرسیاحوں کی اموات کے واقعے پر سوگوار خاندانوں کے ساتھ دلی تعزیت اور ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے انتظامیہ کو بہتر سہولیات فراہم کرنے اور مزید حادثات سے محفوظ رکھنے کے لیے پیشگی انتظامات کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس افسوسناک واقعے میں ریاستی بےحسی کھل کر سامنے آئی ہے۔
عابد شمعون چاند: پاک یونائیٹڈ میڈیا فورم سعودی عرب کے مرکزی چیئرمین عابد شمعون چاند نے افسوسناک واقعے پر تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سانحہ مری ایک قومی سانحہ ہے جس پر صرف متاثرین ہی نہیں بلکہ مجھ سمیت پاکستان کا ہر فرد سوگوار ہے۔ پوری قوم سانحہ مری میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ میں مبتلا ہے۔ ہم غمزدہ خاندانوں کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔ حکومت پاکستان سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ آئندہ موثر اقدامات کرے تاکہ سیاحوں کی زندگی محفوظ رہے اور انسانی جانوں کا ضیاع نہ ہو۔ مری سانحہ میں شہید ہونے والے تمام مرحومین کے لیے دعاگو ہیں کہ اللہ رب العزت مرحومین کو غریق رحمت فرما کر اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور پسماندگان کو صبر ایوب سے نوازے آمین۔