منی بجٹ غریب عوام کو نان وشبینہ سے محتاج کر دے گا

582

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی میں منی بجٹ کی منظوری سے تقریباً 150 اشیا پر سیلز ٹیکس کی مد میں دی گئی چھوٹ کو ختم کر دیا گیا ہے یا اس کی شرح 5 سے 17 فیصد کر دی گئی ہے جس سے حکومت کو اپنے خزانے میں 343 ارب روپے اضافے کی توقع ہے۔اس فنانس بل یا منی بجٹ میں ایکسپورٹ پراسیسنگ زون کی درآمدات پر 17 فیصد سیلز ٹیکس لگانے کی تجویز دی گئی تھی ۔جس کے بعد ایکسپورٹ پراسیسنگ زون صنعتکارںکی پریشانی میں اضافہ ہو گیا۔ملکی تاریخ میں پہلی بار ٹیکس فری ایکسپورٹ پراسیسنگ زون پر ٹیکس لگایا گیا ہے۔برآمدکنندگان کے مطابق سیلز ٹیکس کا نفاذ ای پی زیڈ ایکٹ 1980 ء کے قانون کی خلاف ورزی تصور ہوگا۔ ایکسپورٹ پر سیلز ٹیکس سے حکومت کو ایک روپے کا بھی ٹیکس ریونیو حاصل نہیں ہوگا۔
کراچی اور سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے برآمد کنندگان کے نمائندہ وفد نے وزیر اعظم پاکستان عمران خان سے ملاقات کرکے منی بجٹ میں ایکسپورٹ پراسیسنگ زون پر سیلز ٹیکس نافد کرنے کی تجویز پر اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔برآمد کنندگان کے نمائندہ وفد میں کراچی سے معروف صنعتکار ادریس گیگی، مصطفی ہیمانی، وسیم اختر، حسن صدیقی، صادق حاجی اور اقبال ایوب شامل تھے جبکہ سیالکوٹ سے خواجہ مسعود اور محمود سیٹھی شامل تھے۔ وفد نے وزیر اعظم سے ملاقات میں انھیں بتایا کہ ایکسپورٹ پراسیسنگ زونز پر دنیا بھر میں کہیں بھی ٹیکس عائد نہیں کیا جاتا، سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز اس آرڈیننس کی خلاف ورزی بھی ہوگی جس کے تحت پاکستان میں ایکسپورٹ پراسیسنگ زون کا قیام عمل میں لایا گیا تھا وفد نے وزیراعظم کو بتایا کہ ایکسپورٹ پراسیسنگ زون میں کاروباری لین دین ڈالرز میں ہوتا ہے ایسے میں سیلز ٹیکس پاکستانی روپے میں کیسے دیا جائے؟ وزیر اعظم نے صنعتکاروں کو تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کروائی۔
وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کی جانب سے پیش کیے گئے اس منی بجٹ کو حزب اختلاف کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔لیکن اتنی بڑی اپوزیشن بجٹ کی منظوری میں رکاوٹ نہ بن سکی ۔اپوزیشن کا مؤقف ہے کہ یہ بجٹ ملک میں مہنگائی کی ایک نئی لہر کو جنم دے گا تاہم وزیر خزانہ نے اس بجٹ سے غریب آدمی کے متاثر ہونے کے امکان کو مسترد کیا ہے۔ اْنھوں نے کہا کہ چھوٹ درآمدی اشیا پر ختم کی گئی جو غریب آدمی استعمال نہیں کرتا۔وفاقی وزیر خزانہ کی جانب سے منی بجٹ کے دفاع اور اس سے غریب آدمی کے متاثر نہ ہونے کے دعوے کو معیشت اور تجارت سے وابستہ افراد مسترد کرتے ہیں۔ان کے مطابق منی بجٹ نا صرف مہنگائی میں اضافہ کرے گا بلکہ اس کی وجہ سے ملک کی معاشی شرح نمو پر بھی برے اثرات مرتب ہوں گے جس کی وجہ خام مال پر لگنے والا سیلز ٹیکس یا ان پر دی گئی چھوٹ کا خاتمہ ہے جو ملک میں پیداواری عمل کو سست کر سکتا ہے۔ایسی معاشی نمو پر عوام لعنت بھیج رہے ہیں
سوال یہ ہے کہ منی بجٹ میں کیا ہے؟منی بجٹ کے مطابق شیرخوار/بچے کے دودھ پر اب ٹیکس لگے گا (خام مال اور فائنل پراڈکٹ دونوں پر سترہ سترہ فیصد)فارماسیوٹیکل مصنوعات کے خام مال پر 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس اور بیکریوں میں تیار روٹی کی مصنوعات پر ٹیکس (جو پہلے مستثنیٰ تھے)کھلے میں فروخت ہونے والی سرخ مرچ پر بھی 17 فیصد ٹیکس لگے گا۔درآمد شدہ دہی، پنیر، مکھن، کریم، دیسی گھی، چینی پر ٹیکس 10 فیصد سے بڑھ کر 17 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔وفاقی اور صوبائی اسپتالوں کی طرف سے درآمد کردہ یا عطیہ کردہ سامان پر 17 فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کیا جائے گا اور مانع حمل ادویات پر بھی ٹیکس لگے گا۔آ ئیو ڈائزڈ نمک، کچے پولٹری آئٹمز اور کپاس کے بیج پر ٹیکس لگے گا۔
چاندی اور سونے پر جی ایس ٹی 1 فیصد سے بڑھ کر 17 فیصد اور زیورات پر بھی 17 فیصد ہو جائے گا۔بیرون ملک مقیم پاکستانیوں اور سیاحوں کے ذریعے درآمد کیے گئے ذاتی استعمال کے ملبوسات اور ذاتی سامان پر بھی ٹیکس عائد کیا جائے گا۔پرسنل کمپیوٹرز، لیپ ٹاپ کمپیوٹرز، نوٹ بکس، چاہے ملٹی میڈیا کٹ کو شامل کیا جائے یا نہ کیا جائے، کو بھی نئے ٹیکس کا سامنا کرنا پڑے گا۔ماچس پر بھی 17 فیصد ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ ڈیری پروڈکٹس بنانے میں استعمال ہونے والی مشینری اور سامان پر پانچ فیصد کی جگہ 17 فیصد ٹیکس لگے گا۔موبائل فونز پر فکسڈ ریٹ کی جگہ 17 فیصد ٹیکس لگے گا اور موبائل فون کالز پر ٹیکس بھی 10 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کیا جائے گا۔ موبائل فونز مقامی طور پر بنانے والی انڈسٹری کو بھی مشینری کی درآمد پر 17 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔منی بجٹ غریب آدمی کو کیسے متاثر کرے گا؟اس بارے میں عوام حیران ہی نہیں پریشان بھی ہیں ۔جی ہاں وزیر خزانہ کے اس دعوے کہ منی بجٹ سے غریب آدمی متاثر نہیں ہو گا، کے بارے میں بات کرتے ہوئے ماہر ن ِٹیکس بتایا کہ وزیر خزانہ کے دعوے میں حقیقت نہیں اور یہ منی بجٹ مہنگائی کی نئی لہر کو جنم دے گا۔ ملک میں بیکری آئٹم ایک عام آدمی ہی استعمال کرتا ہے جس میں امیر و غریب دونوں شامل ہیں، اب اس پر سیلز ٹیکس کی شرح بڑھا دی گئی ہے۔ اسی طرح پیکٹوں میں دستیاب مرچوں اور مصالحوں پر بھی سیلز ٹیکس لگا دیا گیا ہے جس کا خریدار امیر کے ساتھ غریب آدمی ہی ہوتا ہے۔درآمد کیے گئے خام مال پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کر دی گئی ہے یا اس پر سیلز ٹیکس کی شرح کو بڑھا دیا گیا ہے جس سے یہ خام مال مہنگا ہو گا جو پیداواری لاگت میں اضافے کا باعث بنے گا اور صنعت کار عام صارفین کو زیادہ مہنگی مصنوعات بیچے گا جس کے خریدار امیر و غریب سب ہوتے ہیں۔ ادویات کے خام مال کی درآمد پر 17 فیصد جی ایس ٹی تجویز کیا گیا ہے اور حکومت کہتی ہے کہ یہ قابلِ واپسی ہو گا مگر پاکستان میں ریفنڈز کی تاریخ کو دیکھا جائے تو یہ بہت عرصے بعد ملتے ہیں اور صنعت کار اشیا کی قیمت میں اضافہ کر کے عام آدمی سے قیمت وصول کر لیتا ہے چنانچہ حکومت کی جانب سے لگائے سیلز ٹیکس سے ملک میں دوائیں مزید مہنگی ہوں گی اور اس کا اثر غریب آدمی پر بھی پڑے گا۔ کچن میں استعمال ہونے والی چند بنیادی اشیا مہنگی نہیں ہوں گی کیونکہ یہ سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافے اور اس پر ختم ہونے والی چھوٹ میں شامل نہیں۔ ان اشیا میں چینی، چاول، دالیں اور آٹا شامل ہیں۔چاول کی پیداوار مقامی ہے اس لیے اس پر کوئی سیلز ٹیکس نہیں، اسی طرح آٹے پر بھی کوئی سیلز ٹیکس نہیں لگایا جاتا کیونکہ اس کی پیداوار مقامی طور پر ملوں میں ہوتی ہے اور یہ درآمد نہیں کیا جاتا۔ چینی پر درآمد کی سطح پر پہلے سے سیلز ٹیکس وصول کیا جاتا ہے اور یہ اس لیے منی بجٹ کا حصہ نہیں۔ اسی طرح دالوں کی مقامی پیداوار بھی ہوتی ہے اور یہ درآمد بھی کی جاتی ہیں۔ درآمد کی جانے والی دالیں پہلے سے سیلز ٹیکس کے نیٹ میں ہیں جبکہ مقامی پیداوار پر یہ نہیں لگایا جاتا۔حکومت آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی قسط لینے کے لیے لوگوں کی جیب سے دو ارب ڈالر نکالنے جا رہی ہے۔ اس منی بجٹ کی منظوری کے بعد لوگوں کی قوت خرید میں کمی آئے گی جو ایک غریب آدمی کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے مزید مشکلات کا شکار بنائے گا۔
صنعت کار طبقے کے مطابق خام مال پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کرنے اور اس کی شرح 17 فیصد کرنے سے معیشت اور پیداواری عمل پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور خام مال کے مہنگا ہونے سے پیداواری عمل سست روی کا شکار ہونے کا خدشہ ہے جو روزگار کے مواقع کو کم کرنے باعث بن سکتا ہے۔ خام مال کے مہنگا ہونے سے جب مصنوعات مہنگی ہوتی ہیں تو یہ ا سمگلنگ میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ ملک میں خوردنی تیل کی زیادہ قیمت کی وجہ سے ایران سے ا سمگل شدہ خوردنی تیل اب زیادہ مارکیٹ میں آرہا ہے جس کا اثر خوردنی تیل کی صنعت پر پڑ رہا ہے۔دوسرا پیداواری عمل میں کمی آئے گی اور اس کی وجہ سے کم پیداوار ہو گی تو کم ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے یا کوئی صنعت پہلے سے موجودہ ملازمین میں بھی چھانٹی کر دے تاکہ نقصان سے بچا جا سکے۔ اْنھوں نے دونوں صورتوں میں اس کا اثر غریب آدمی پر پڑے گا۔
پاکستان میں حکومت کی جانب سے منی بجٹ کا پیش کرنا آئی ایم ایف کے مطالبات کا ایک حصہ ہے جنھیں پورا کر کے پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی قسط وصول ہو سکتی ہے۔ پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کی اگلی قسط کے لیے پاکستان کا کچھ پیشگی اقدامات اٹھانا لازمی ہے جن میں ایک اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا خود مختاری کا بل ہے اور اس کے ساتھ 400 ارب روپے اضافی ٹیکس اکٹھا کرنا ہے۔ حکومت نے وفاقی بجٹ میں 5800 ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کرنے کا ٹارگٹ رکھا تھا تاہم آئی ایم ایف نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے اس سال ملک میں ٹیکس آمدنی 6200 ارب روپے ہو۔ 400 ارب اضافی منی بجٹ میں سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کر کے اور اس کی شرح میں اضافہ کر کے اکٹھا کیا جائے گا۔ اسی طرح 400 ارب اضافی اکٹھا کرنے کے لیے پٹرولیم ڈویلمپنٹ لیوی میں بھی اضافہ کیا جا رہا ہے۔ اس پوری صورتحال سے غریب عوام نان وشبینہ کے محتاج ہو جائیں گے۔