مسئلہ کشمیر کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، پاکستان 

300

اسلام آباد:وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف نے کہا ہے کہ بھارت کے ساتھ مثبت تعلقات چاہتے ہیں ، مسئلہ کشمیر کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا،بھارت نے دکھلاوے کے طور پر  افغانستان کیلئے 50000 ٹن گندم کی امداد کا اعلان کیا ، بدترین انسانی بحران کا سامنا کرنے والے افغانوں کیلئے ایک دانہ بھی نہیں بھیجا۔

مشیر برائے قومی سلامتی کا کہنا تھا کہ  بھارت نے جان بوجھ کر گندم کی امداد کا اعلان کیا تھا پاکستان اپنے زمینی راستوں کے استعمال کی اجازت دینے سے انکار کردے گا تاہم اس کے برعکس ہوا ، سی پیک ملک کی لائف لائن اور مستقبل ہے، سی پیک ترقیاتی منصوبوں پر کام تیز کر دیئے گئے ہیں اور صنعت کاری کے اگلے مرحلے سے خطے میں معاشی خوشحالی آئے گی۔ ایک انٹرویومیں انہوں نے کہا کہ بھارت انسانیت کے خلاف جرم کر رہا ہے اور نسل کشی کی تمام حدیں پار کر رہا ہے تاہم دنیا نے اس کے وحشیانہ مظالم پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں، عالمی برادری بھارت کو چین کیلئے ایک کائونٹر ویٹ کے طور پر دیکھ رہی ہے تاہم یہ اپنے لئے ایک کائونٹر ویٹ بن گیا ہے۔ ڈاکٹر معید یوسف نے کہا کہ افغانستان کے بحران کا حل امریکی انتظامیہ پر منحصر ہے کیونکہ پابندیوں میں نرمی کئے بغیر افغانستان کی ترقی کو یقینی بنانا اور معمولات زندگی بحال نہیں کئے جا سکتے، عالمی برادری پرامن ملک کیلئے افغانوں کو اپنا نظام آسانی سے چلانے کیلئے مدد فراہم کرے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ پاکستان میں پہلے سے ہی چالیس لاکھ افغان مہاجرین موجود ہیں اور افغانستان میں کسی بھی قسم کی بدامنی سے پاکستان میں بڑے پیمانے اس کے منفی اثرات پھیلیں گے، دنیا اور مقامی میڈیا مجھ پر طالبان کا ترجمان ہونے کا الزام لگا رہا ہے لیکن یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں اپنے ملک کی حفاظت کروں اور بڑھتے ہوئے خطرات پر تشویش کا اظہار کروں۔ مشیر قومی سلامتی نے کہا کہ اگر ہمارے پڑوس میں آگ لگتی ہے تو اس کا اثر ضرور ہوگا لہذا وہ افغانستان میں جاری انسانی بحران کو بار بار جھنجھوڑ رہے ہیں کیونکہ اس کے پاکستان پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومتوں کو تسلیم کرنے جیسی کوئی چیز نہیں ہے بلکہ ریاستوں کو تسلیم کیا جاتا ہے، افغانستان ایک تسلیم شدہ ریاست ہے۔ ڈاکٹر معید یوسف نے کہا کہ افغانستان میں بینکنگ کا نظام درہم برہم ہے جسے بحال کیا جانا چاہیے تاکہ مقامی عوام اور بین الاقوامی ڈونر ایجنسیاں افغانستان میں عام لوگوں کی مدد کریں، ہم دنیا کو افغانستان کی حمایت پر قائل کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد پر باڑ لگانے اور انتظام کے حوالے سے حکومتی سطح پر بہت مثبت ردعمل آیا لیکن مقامی سطح کے مسائل کو نظر انداز کیا جانا چاہیے۔ ڈاکٹر معید یوسف نے نئی منظور شدہ پہلی قومی سلامتی پالیسی (این ایس پی) پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پالیسی میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اقتصادی سلامتی اس کا مرکز ہوگی، ہمارے پاس مالی دیوالیہ پن ہے اور ہماری جی ڈی پی میں اتار چڑھائوہماری خودمختاری سے سمجھوتہ کر رہا ہے جسے ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے، اس کے علاوہ بیرونی عدم توازن کو کم کرنے اور برآمدی تنوع پر توجہ دینا بھی ضروری ہے کیونکہ معاشی آزادی بہت اہم ہے۔ انہوں نے ذکر کیا کہ نفاذ کا فریم ورک اہم تھا کیونکہ این ایس پی واحد پالیسی تھی جس کے نفاذ کیلئے قومی سلامتی ڈویڑن کا ایک مکمل شعبہ موجود ہے۔ ملک کی قومی سلامتی کیلئے طے کردہ این ایس پی کی ہدایت پر تبصرہ کرتے ہوئے مشیر قومی سلامتی نے کہا کہ یہ خطہ پاکستان کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا، پاکستان نے کسی بھی کیمپ کی سیاست سے بچنے کیلئے ایک غیر جانبدارانہ پالیسی کا تصور دیا ہے جبکہ چین کے ساتھ اس کے تعلقات غیر گفت و شنید ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا ارادہ بیان کرنا بہت ضروری ہے اور ہمیں دنیا کو اپنے بارے میں حقیقت بتانی ہے، بھارت نے ہمیشہ جھوٹے بیانیے کے ذریعے پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر نیچا دکھانے کی کوشش کی ہے، قومی سلامتی پالیسی میں پاکستان کی واضح سمت ہے، پاکستان بھارت کے ساتھ امن اور اچھے روابط چاہتا ہے لیکن مسئلہ کشمیر کو حل کئے بغیر ایسا نہیں ہوسکتا۔ ڈاکٹر معید یوسف نے اس بات پر زور دیا کہ قومی سلامتی پالیسی کی توجہ ملک کے شہریوں کو ٹی ٹی پی اور دیگر دشمن ملک عناصر سے تحفظ فراہم کرنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سرحدی علاقوں میں دہشت گردی میں تھوڑا سا اضافہ ہوا لیکن سیکورٹی فورسز کی کامیاب مداخلت کے بعد اس پر قابو پالیا گیا اور یہ واضح ہونا چاہیے کہ عوام کی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔