الماتیٰ کی پروازیں، امریکی سازش ناکام

548

قازقستانی شہر الماتیٰ کے بین اقوامی ائر پورٹ سے عالمی پروازوں کے شروع ہوتے ہی امریکا اور یورپی ممالک کے جنیوا میں ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کا اعلان کیا گیا۔ ناٹو کے نمائندے نے اعلان کیا کہ روس کے ساتھ مذاکرات میں کسی طرح کی کامیا بی نہ ہو سکی اور اس کے ساتھ ہی تقریباً ایک ہفتے کی بدامنی کے بعد پیر کو حالات معمول پر آگئے ہیں۔ وسط ایشیا میں سابق سوویت یونین کی سب سے مستحکم ریاست کو دوران بدامنی، آزادی کی 30 سالہ تاریخ میں اب تک کے بدترین تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کے بارے میں قازقستان کے صدر قاسم جومارت توکایف کا کہنا تھا کہ یہ غیر ملکی سازش کا حصہ تھی اور بعد کے آنے والے حالات نے یہی ثابت کر دیا۔ یوکرین پر روسی حملے کے خدشے کے باعث امریکا اور یورپی ممالک کی یہی خواہش تھی کہ فوری طور پر روس کو قازقستان میں الجھایا جائے اور ایسا ہی ہونے والا تھا لیکن روسی افواج نے امریکا اور یورپی ممالک کی اس خواہش کو پس پشت ڈال کر ایک ہفتے میں آپریشن مکمل کرنے کے بعد اپنی افواج کو قازقستان سے نکل جانے کا حکم جاری کیا جس بعد امریکا اور روس کے درمیان مذاکرات کسی نتیجے کے بغیر ختم ہوگئے۔
تاس نیوز کے مطابق صدر ولادی میر پیوٹن نے پیر کو قازقستان کے دفاع میں ’فتح‘ کا دعویٰ کیا ہے جبکہ قازقستان کے صدر قاسم جومارت توکایف کا کہنا ہے کہ روسی فوجی اب ’جلد‘ واپس چلے جائیں گے اور فوری انخلا شروع ہوگیا ولادی میر پیوٹن کا کہنا تھا کہ یہ فتح غیر ملکی حمایت یافتہ دہشت گرد بغاوت کے خلاف حاصل کی گئی۔ انہوں نے دیگر سابق سوویت ریاستوں کے رہنماؤں سے وعدہ کیا کہ ماسکو کے زیر قیادت اتحاد ان کی بھی حفاظت کرے گا۔ خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق قازقستان کے سب سے بڑے شہر الماتیٰ میں تقریباً ایک ہفتے کی بدامنی کے بعد پیر کو حالات معمول پر آگئے ہیں۔ وسط ایشیا میں سابق سوویت یونین کی سب سے مستحکم ریاست کو دوران بغاوت، آزادی کی 30 سالہ تاریخ میں اب تک کے بدترین تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ الماتی میں شہری صفائی کا عملہ تاحال سڑکوں پر پھیلا ملبہ اٹھانے میں مصروف ہے جو ابھی تک جلی ہوئی کاروں سے بھری ہوئی ہیں۔ شہر میں زیادہ تر دکانیں دوبارہ کھل گئی ہیں جب کہ پبلک ٹرانسپورٹ اور معمول کی ٹریفک بحال ہو گئی ہے۔ گزشتہ بدھ کے بعد پہلی بار شہر میں کئی گھنٹے کے لیے انٹرنیٹ سروس بھی بحال کر دی گئی ہے۔
میئر کے دفتر کے قریب چوک جسے بغاوت کے دوران جلا دیا گیا وہاں سیکورٹی فورسز تعینات کر کے اسے عوام کے لیے بند کر دیا گیا تھا جب کہ پولیس ناکوں پر گاڑیوں کی تلاشی لیتی رہی۔ پیوٹن نے سابق سوویت ریاستوں کے فوجی اتحاد سی ایس ٹی او کے ورچوئل سربراہ اجلاس میں انہیں سراہتے ہوئے کہا کہ یہ ادارہ ’ریاست کی بنیادوں کو کمزور کرنے، قازقستان میں داخلی صورت حال کو مکمل تباہی کی کوشش سے نمٹنے اور دہشت گردوں، مجرموں، لٹیروں اور دوسرے جرائم پیشہ عناصر کو روکنے میں کامیاب رہا۔ پیوٹن کے بقول ’یقینا ہم سمجھتے ہیں کہ قازقستان میں ہونے والے واقعات ہماری ریاستوں کے اندرونی معاملات میں بیرونی مداخلت کی پہلی اور آخری کوشش نہیں ہے۔ سی ایس ٹی او کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات نے واضح طور پر دکھا دیا ہے کہ ہم داخلی سطح پر حالات خراب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے‘۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی اور رائٹرز کے مطابق اس پورے آپریشن میں صرف روس کو کامیابی حاصل ہوئی ہے اس کے بر عکس امریکا اور یورپی ممالک کو اس صورتحال سے بھاری نقصان کا خدشہ ہے۔ قازقستان کے صدر قاسم جومارت توکاییف نے پیر کو کہا کہ ان کے ملک نے گزشتہ ہفتے تاریخی تشدد کے دوران بغاوت کی کوشش کو ناکام بنا دیا ہے۔
توکایف نے ویڈیو کانفرنس میں کہا کہ ’مسلح عسکریت پسندوں‘ نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے احتجاج کے پس منظر کو استعمال کیا۔ توکایف کا کہنا تھا کہ باغیوں کے بنیادی مقاصد واضح تھے۔ وہ آئینی نظام کو کمزور کرنا، سرکاری اداروں کی تباہی اور اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے بغاوت کی کوشش کر رہے تھے۔ قازق رہنما کا کہنا تھا کہ ماسکو کی زیرقیادت کلیکٹو سیکورٹی ٹریٹی آرگنائزیشن (سی ایس ٹی او) نے صرف دو ہزار سے زیادہ فوجی تعینات اور ڈھائی سو ہتھیار نصب کیے ہیں۔
امریکا اور روس کے سینئر سفارت کار 10جنوری کے روز جنیوا میں سیکورٹی کے موضوع پر مذاکرات کر رہے ہیں۔ گو کہ ان مذاکرات میں یوکرائن کا موضوع اہم، تاہم سرد جنگ کے بعد پیدا ہونے والے کئی مسائل اس بات چیت کا حصہ ہوں گے۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن 2019ء سے یہی کہہ رہے ہیں کہ اگر مغربی دفاعی اتحاد ناٹو سلامتی کی مطلوبہ ضمانتیں نہیں دیتا، تو وہ روسی فوجی ماہرین کی جانب سے دیے گئے متعدد منصوبوں پر غور کریں گے۔ یہ وہ وقت تھا جب ماسکو حکومت مغربی دفاعی اتحاد ناٹوکی جانب سے مذاکرات کی دعوت پر ’غور‘ کر رہی تھی۔ لیکن صدر پیوٹن نے کہنا تھا کہ ناٹو کا مشرق کی سمت پھیلاؤ روس کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ اپنی سلامتی کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔ ’’ہمارے پاس پسپا ہونے کے جگہ ہی نہیں بچی‘‘۔
صدر پیوٹن کا عالمی اخبارات کو کہنا تھا کہ ناٹو یوکرائن میں اپنے میزائل نصب کر سکتا ہے، جو چار یا پانچ منٹ میں ماسکو تک پہنچ سکتے ہیں۔ ’’امریکا اور یورپی ممالک نے روس کو اس لکیر کی جانب دھکیل دیا ہے، جو ہم عبور نہیں کر سکتے۔ وہ ہمیں اس مقام پر لے آئے ہیں، جہاں ہمیں ان کو دو ٹوک الفاظ میں کہنا ہے، بس!‘‘ اس سے قبل روس نے ناٹو کے لیے ایک معاہدے کا مسودے پیش کیا تھا، جس میں امریکا اور ناٹو کے وفود کو مغربی دفاعی اتحاد کی مشرق کی جانب وسعت روکنے کے لیے کہا گیا تھا۔ ماسکو کا کہنا ہے کہ ناٹو روس کو ضمانت دے کہ وہ یوکرائن کو اپنا رکن نہیں بنائے گا اور اس ضمانت پر عمل درآمد ناٹو کے لیے لازمی بھی ہونا چاہیے۔ ناٹو اتحاد اس سے قبل ایسی ضمانتوں کے مطالبات مسترد کر چکا ہے۔ ناٹو کے نمائندے نے 10جنوری 2022ء کو اپنے اس عزم کا ایک پھر اعلان کیا کہ ’’ناٹو کی رکنیت اصولی طور پر کسی بھی کوالیفائنگ ملک کے لیے کھلی رہی گی‘‘۔
جنیوا میں روس اور امریکا کے مابین یوکرائن کے تنازع پر پیر 10جنوری کو آٹھ گھنٹے تک چلنے والی بات چیت کے بعد فریقین کشیدگی کو کم کرنے کے اقدامات جاری رکھنے پر رضامند ہوگئے۔ تاہم کسی اہم پیش رفت کی کوئی علامت نظر نہیں آئی۔ تقریباً ایک لاکھ روسی فوج یوکرائن کی سرحد کے قریب موجود ہے، جس کی وجہ سے روس کی جانب سے حملہ اور مغرب کی طرف سے جوابی کارروائی کا خدشہ لاحق ہے۔ دوسری طرف روس نے بھی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ امریکا مغرب کے ساتھ ماسکو کے تصادم کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خطرات کونظر انداز نہ کرے۔ ان جنگی حالات میں پاکستان کے براہ راست متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔