کراچی چیمبر نے ضمنی فنانس بل 2021-2022 پر نظر ثانی کا مطالبہ کردیا

310

کراچی (اسٹاف رپورٹر) بزنس مین گروپ اور کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی قیادت نے وفاقی حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کی ایما پر ضمنی فنانس بل 2021-22 کے ذریعے ٹیکس عائد کرنے کے اقدامات پر تحفظات کا اظہار کیا ہے جس کے نہ صرف صنعت و تجارت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے بلکہ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے غریب اور متوسط طبقے پر بھی بوجھ پڑے گا۔ ایک مشترکہ بیان میں چیئرمین بزنس مین گروپ زبیر موتی والا، وائس چیئرمین بی ایم جی طاہر خالق، ہارون فاروقی، زبیر موتی والا، انجم نثار، جاوید بلوانی، جنرل سیکرٹری بی ایم جی اے کیو خلیل، صدر کراچی چیمبر محمد ادریس، سینئر نائب صدر عبد الرحمن نقی، نائب صدر قاضی زاہد حسین، سابق سینئر جانب صدر ابراہیم کوسمبی نے مطالبہ کیا کہ ضمنی فنانس بل 2021-22 پر نظرثانی کی جائے اور مرکزی اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیے بغیر اس پر عمل درآمد نہ کیا جائے۔انہوں نے نشاندہی کی کہ پلانٹ، مشینری اور صنعتی خام مال بشمول خام کپاس ، ڈبے میں پیک ڈیری ملک، ، آئل سیڈز جیسی ضروری اشیاء چھوٹ کو واپس لینے سے صنعتی کارکردگی کے ساتھ ساتھ غریب عوام کی زندگیوں کو بری طرح متاثر کرکے معیشت پر نقصان دہ اثرات مرتب ہوں گے۔یہ سخت اقدامات اس حد تک نافذ کیے گئے ہیں کہ انہوں نے دودھ اور روزمرہ استعمال کی بہت سی دیگر اشیاء پر بھی ٹیکس لگا دیا ہے جس سے غریب عوام کا جینا دوبھر ہو جائے گا۔انھوں نے مزید کہا کہ ہر ماہ پیٹرول کی قیمتوں میں 4 روپے فی لیٹر اضافے اور بجلی و گیس کے نرخوں میں اضافے کی باتوں سے یہ تاثر ملتا ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو مکمل طور پر ناقابل عمل بنانے کا پروگرام بنالیا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت اور ایف بی آر کو آئی ایم ایف کی شرائط کی تعمیل کے لیے صنعت اور صارفین پر اضافی ٹیکس کا بوجھ ڈالنے کے بجائے ٹیکس دائرہ کارکو وسیع کرنے اور 340 ارب روپے کا اضافی ہدف حاصل کرنے کی کوششیں تیز کرنی چاہیے جو غیر رجسٹرڈ افراد کی تعداد کے مقابلے میں اتنا بڑا ٹارگٹ نہیں۔ درحقیقت حکومت پاٹا، فاٹا کے لیے مختلف اشیاء کی درآمد پر دی گئی چھوٹ سمیت مختلف خامیوں کو دور کر کے نمایاں اضافی آمدنی حاصل کر سکتی ہے جس کابڑے پیمانے پر غلط استعمال کیا گیا۔ ان میں اسٹیل شیٹس، بڑی مقدار میں خوردنی تیل، اسٹیل شیٹس اور پلاسٹک میٹیریل وغیرہ شامل ہیں۔ مزید برآں ایران کے آٹو پارٹس، بلیک ٹی، خوردنی تیل کی بڑے پیمانے پر اسمگلنگ بھی جاری ہے جس سے سرکاری خزانے کو بھاری نقصان پہنچ رہاہے۔انہوں نے کہاکہ آئی ایم ایف صرف مالیاتی خسارے کو کم کرنے کے لیے وسیع رہنمائی فراہم کر سکتا ہے مگر معیشت کو مائیکرو مینیج نہیں کر سکتا اس لیے ان شعبوں کو نشانہ بنانا غیر منصفانہ اور غیر دانشمندانہ ہے جو ٹیکس سے مطابقت رکھتے ہیں اور زیادہ ٹیکس برداشت کرنے سے قاصر ہیں۔انھوں نے کہا کہ سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 کی سیکشن 23 (sub-sec.1, G) ترمیم کے ذریعے نئے قانون کے مطابق سپلائر کو خریدار کی طرف سے فراہم کردہ جعلی شناختی کارڈ نمبر کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے جبکہ اس سے قبل خریدار کی طرف سے فراہم کردہ جعلی شناختی کارڈ کے لیے سیلر سپلائر کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاتا تھا۔سیلز ٹیکس نظام میں پہلے سے ہی 50ہزار اداروں کی معمولی تعداد رجسٹرڈ ہے۔