!…ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

735

 

حکومت نے قومی اسمبلی سے ضمنی مالیاتی بل چند ترامیم کے ساتھ منظور کرا لیا، اسٹیٹ بنک سمیت متعدد بلوں کی بھی کثرت رائے سے منظوری دی گئی، اپوزیشن کی تمام ترامیم مسترد ہو گئیں، شق وار منظوری کے دوران جب پہلی مرتبہ اپوزیشن کی جانب سے زبانی رائے شماری کو چیلنج کیا گیا تو اسپیکر نے حکومتی اور اپوزیشن ارکان کو باری باری کھڑا کر کے حق اور مخالفت میں رائے لی، حکومت کی عددی اکثریت 168 جب کہ اپوزیشن کے 150 ارکان کی رائے سامنے آئی تاہم دیگر شقوں پر ترامیم کے دوران ایک مرتبہ پھر اپوزیشن نے سپیکر کی رائے شماری چیلنج کی جس پر اسپیکر نے جب دوسری مرتبہ اپوزیشن کی ترامیم پر حق اور مخالفت میں باری باری کھڑا کر کے ووٹنگ کرانے کا اعلان کیا اپوزیشن کے 146 ووٹوں کے مقابلے میں حکومت کے 163 ووٹ نکلے اس طرح اپوزیشن کی ترامیم کثرت رائے سے مسترد کر دی گئیں۔ قومی اسمبلی سے آئی ایم ایف کا مسلط کردہ ضمنی مالیاتی تخمینہ بآسانی منظور کروانے میں حکومت کی کامیابی اس بات کی مظہر ہے کہ حزب اختلاف کی جانب سے یہ دعوے کہ وہ حکومت کو عام آدمی کو موت کے منہ میں دھکیل کر ملک کو تباہی کے دھانے پر پہنچانے کی اجازت نہیں دیں گے اور بیرونی آقائوں کی ڈکٹیشن پر پیش کیا جانے والا یہ ضمنی مالیاتی تخمینہ کسی صورت اسمبلی سے منظور نہیں ہونے دیں گے، محض زبانی دعوے ہی تھے ان کے پس پشت کوئی حقیقی منصوبہ بندی اور ٹھوس حکمت عملی موجود نہیں تھی، اس ضمنی تخمینے کی منظوری سے حزب اختلاف کے وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد اور ایوان کے اندر سے تبدیلی کے نعروں کے غباروں سے بھی ہوا نکل گئی ہے حزب اختلاف کو فی الحال موجودہ تنخواہ پر ہی کام کرنا ہو گا تاہم ضمنی تخمینے کی منظوری کے دوران کرائی گئی رائے شماری کے اعداد و شمار سے یہ حقیقت بھی نمایاں ہوتی ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین جو رکن اسمبلی بننے کے لیے کروڑوں روپے کے اخراجات اور سر دھڑ کی بازی لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے، انہیں عملاً ایوان کی کارروائی سے کس قدر دلچسپی ہوتی ہے۔ قومی اسمبلی کا ایوان اس وقت 342 ارکان پر مشتمل ہے، جن میں سے حکومتی ارکان 182 جب کہ 160 حزب اختلاف سے تعلق رکھتے ہیں، عام طور پر یہ ارکان ایوان کی کارروائی میں کتنی دلچسپی لیتے ہیں اس کا اندازہ آئے روز کورم پورا نہ ہونے کے باعث اجلاس ملتوی ہونے سے لگایا جا سکتا ہے، تاہم جمعرات تیرہ جنوری کا اجلاس خصوصی اہمیت اور نزاکت کا حامل تھا چنانچہ فریقین نے اپنے زیادہ سے زیادہ ارکان کی حاضری کو یقینی بنانے کے لیے پورا زور لگایا تھا مگر اس اجلاس میں بھی پہلی گنتی میںحکومت کے 14 اور حزب اختلاف کے دس جب کہ دوسری گنتی میں حکومت کے 19 اور حزب اختلاف کے 14 ارکان ایوان میں موجود نہیں تھے اور اس حاضری سے متعلق بھی یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ حاضری پوری کرنے کے لیے وزیر اعظم عمران خاں، قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کو ان کے کمروں سے ایوان میں بلانا پڑا تھا جب سیاسی جماعتوں کے سربراہان کی قومی اسمبلی کی کارروائی میں دلچسپی کا عالم یہ ہو تو دیگر ارکان سے کیا توقع رکھی جا سکتی ہے؟ جہاں تک ضمنی میزانئے کی منظوری سے عوام پر پڑنے والے اثرات کا تعلق ہے اس کا اندازہ وزیر اعظم عمران خاں اور وزیر دفاع پرویز خٹک کے مابین پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے دوران ہونے والے مکالمے اور تلخی سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ یہ صورت حال اس بات کی نشاندہی بھی کرتی ہے کہ حکمران تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی اور وفاقی وزراء تک مشکل حالات سے دو چار ہیں اور ان کے لیے اپنے حلقہ انتخاب کے لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے احتجاج کا راستہ اختیار کرنا ضروری ہو چکا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے بحث کو سمیٹتے ہوئے حسب سابق روایتی بیان دے کر عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی کہ ٹیکسوں میں کمی بیشی سے عام آدمی متاثر نہیں ہو گا سوال یہ ہے کہ اس ضمنی میزانئے کے ذریعے حکومت نے کم و بیش جن ڈیڑھ صد اشیاء پر 17 فیصد کی یکساں شرح سے جی ایس ٹی لاگو کر دیا ہے یہ ٹیکس عوام سے نہیں تو کس سے وصول کیا جائے گا؟ یہ عام آدمی پر بوجھ نہیں بنے گا تو آئی ایم ایف کا 343 ارب روپے کے اضافی ٹیکسوں کا ہدف کیوں کر پورا ہو گا جس کی خاطر یہ سارا کھیل کھیلا گیا ہے۔ وزیر خزانہ نے عوام کی اشک سوئی کی خاطر ضمنی بجٹ میں عائد کئے گئے بعض روز مرہ استعمال کی اشیاء پر ٹیکسوں میں رعایت کا اعلان بھی کیا مگر یہاں بھی وہ ہاتھ سے صفائی دکھا گئے اور تیرہ سو اور اٹھارہ سو سی سی کی کاروں پر ڈیوٹی آدھی کرنے کا اعلان بھی کر دیا گویا یہ نصف کروڑ روپے کے قریب مالیت کی گاڑیاں غریب آدمی ہی تو استعمال کرتا ہے ؎
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا