آئی ایم ایف کی شرائط ماننے سے سیکورٹی پر سمجھوتا کرنا پڑتا ہے،وزیراعظم

592
اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان قومی سیکورٹی پالیسی کی افتتاحی تقریب سے خطاب کررہے ہیں

اسلام آباد(خبرایجنسیاں) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ٓئی ایم ایف کی شرائط ماننے سے ملکی سیکورٹی پر سمجھوتا کرنا پڑتا ہے۔قومی سلامتی پالیسی کے عوامی حصے کے اجرا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کاکہنا تھاکہ بڑی محنت سے نیشنل سیکورٹی پالیسی کومرتب کیا گیا ہے، جس میں قومی سلامتی کو صحیح معنوں میں واضح کیا گیاہے، کوشش ہے کہ ریاست اور عوام ایک راستے پر چلیں۔ وزیر اعظم کے بقول آزادی کے بعد ابتدائی دور میں ملک کا ارتقا غیر محفوظ ماحول میں ہوا ،ہمارے اپنے سے کئی گنا بڑے پڑوسی ملک سے جنگیں ہوئیں، ہماری سوچ صرف ایک رخی تھی کہ ہمیں فوجی سیکورٹی کی ضرورت ہے لیکن نئی قومی سلامتی پالیسی میں بتایا گیا ہے کہ سلامتی کی کئی جہتیں ہیں۔عمران خان نے کہا کہ اگر ملکی معیشت ٹھیک نہ ہو تودفاع بھی کمزور وہوگا، خود کو زیادہ دیر تر محفوظ نہیں رہ سکتے، ماضی میں ہم نے ملک کو معاشی طور پر مستحکم نہیں کیا، آئی ایم ایف سب سے سستے قرض دیتا ہے، مجبوری میں اس کے پاس جانا پڑتا ہے اور اس کی شرائط ماننا پڑتی ہیں اور عوام پر بوجھ ڈالنا پڑتا ہے، جب تک سب ترقی نہیں کریں گے وہ قوم ہمیشہ غیر محفوظ رہے گی، جب اجتماعی ترقی ہوگی تب ملک محفوظ ہوتا ہے۔ان کا کہنا تھاکہ پاکستان کو قانون کی حکمرانی کا چیلنج درپیش ہے، قانون کی حکمرانی کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا، قانون کی بالادستی نہ ہو تو معاشرے میں غربت ہوتی ہے، رسول اکرمﷺ ریاست مدینہ میں قانون کی پاسداری لے کر آئے، ریاست اپنے کمزور طبقے کی ذمہ داری لیتی ہے۔وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ جس طرح سیکورٹی فورسز نے ہمیں محفوظ رکھا اس پر انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری فورسز نے پاکستان کو محفوظ کیا، جو فورسز اپنے ملک کو محفوط نہیں بناسکیں ان کے ملکوں کا حال دیکھ لیں، ہم خوش قسمت ہیں ہمارے پاس منظم اور بہترین تربیت یافتہ فورس ہے۔عمران خان نے مزید کہا کہ ملک میں 3طبقاتی تعلیمی نظام ہے، انگلش میڈیم، اردو میڈیم اور مدارس، یہ نظام ناانصافی پر مبنی ہے، ہم تعلیمی نسل پرستی کررہے ہیں اور 3 الگ الگ ثقافتیں بنارہے ہیں، اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہم یکساں نصاب تعلیم لائے ہیں۔ قبل ازیں وزیراعظم نے قومی سلامتی پالیسی کا اجرا کیا ۔ 100سے زائد صفحات پر مشتمل پالیسی کا آدھا حصہ پبلک کیا گیا ہے ۔ پالیسی معیشت ،فوج اور انسانی تحفظ کے 3بنیادی نکات پر مشتمل ہے۔ معاشی سیکورٹی کو قو می سلامتی پالیسی میں مرکزی حیثیت دی گئی ہے۔سلامتی پالیسی پر سالانہ بنیادوں پر نظرثانی کی جائے گی۔ ہر نئی حکومت کو پالیسی پر ردوبدل کا اختیار حاصل ہو گا ۔ نیشنل سیکورٹی کمیٹی قومی سلامتی پالیسی کی وارث ہو گی ۔ہر مہینے حکومت نیشنل سیکورٹی کمیٹی کو عملدرآمد رپورٹ پیش کرنے کی پابند ہوگی۔ قومی سلامتی پالیسی میں 200سے زائد پالیسی ایکشن وضع کیے گئے ہیں۔ پالیسی ایکشن کا حصہ کلاسیفائیڈ تصور ہو گا ۔ خطے میں امن ،رابطہ کاری اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارت پالیسی کا بنیادی نقطہ ہے۔ہائبرڈ وار فیر بھی قومی سلامتی پالیسی کا حصہ ہے۔ قومی سلامتی پالیسی میں ملکی وسائل کو بڑھانے کی حکمت عملی دی گئی ہے۔ کشمیر کو پاکستان کی سلامتی پالیسی میں اہم قرار دیا گیا ہے۔ مسئلہ کشمیر کا حل پالیسی کی ترجیحات میں شامل ہے ۔بڑھتی آبادی کو انسانی تحفظ کا بڑا چیلنج قرار دیا گیا ہے۔ شہروں کی جانب ہجرت، صحت، پانی اور ماحولیات، فوڈ اور صنفی امتیاز انسانی تحفظ کے اہم عنصر ہیں۔ ایران کے ساتھ معاملات عالمی پابندیاں ختم ہونے کے بعد آگے بڑھانے کا اختیار حکومت وقت کو تجویز کیا گیا ہے۔ گڈ گورننس، سیاسی استحکام ،فیڈریشن کی مضبوطی پالیسی کا حصہ ہے۔دوسری جانب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے قومی سلامتی پالیسی کے اجراء کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملٹری سیکورٹی قومی سلامتی کا صرف ایک پہلو ہے۔قومی سلامتی پالیسی کے اجراء کی تقریب میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھاکہ قومی سلامتی کے تمام پہلوئوں پر مشتمل جامع پالیسی کی تشکیل زبردست اقدام ہے۔جنرل باجوہ نے مزیدکہا کہ یہ دستاویز قومی سلامتی کا تحفظ یقینی بنانے میں مددگار ہوگی۔