عصبیت کا خاتمہ اور نظریاتی اساس

386

مدینہ کی اسلامی ریاست کا ایک نمایاں پہلو اس کا عربوں کی قبائلی عصبیت اور رنگ و نسل کی بنیاد پر تفریق اور مالی وسائل کی بنیاد پر قیادت حاصل کرنے کے تصور کا ابطال اور لا الٰہ الا اللہ کے مطالبات کو عملاً نافذ کرنا تھا۔ گویا مدینہ کی ریاست کا قیام عرب و عجم اور تاریکی میں ڈوبے ہوئے یورپ کی ’عوامی جمہوریہ‘ کے تصورکا متبادل ایک انقلابی فکر کا نفاذ تھا کہ ریاست کی بنیاد نسلی اور قبائلی اتحاد کی جگہ نظریہ، عقیدہ اور اقدارِ حیات کو ہونا چاہیے۔ چنانچہ ریاست مدینہ کا مقصد اقامت دین اور ایک ایسی امت کا قیام تھا جو رنگ ونسل اور زبان اور زمین کی کشش سے آزاد ہو اور صرف انسانوں اور کائنات کے خالق و مالک کی بندگی پر کاربند ہو۔ مدینہ کی اسلامی ریاست عربوں میں مروجہ قبائلی نظام اور پڑوس کے ممالک میں رائج بادشاہت (ایران و روم) سے بالکل مختلف ایک نئے تصور اورنئے سیاسی نظام کی نمایندہ تھی۔ اس ریاست کا مقصد کسی فرد کی موروثی ریاست کا قیام نہ تھا، نہ کسی خاص مذہبی گروہ کی اجارہ داری قائم کرنا تھا، بلکہ اللہ کی زمین پر اس کے دین کی اقامت تھا۔ قرآن کریم نے اقامت دین کے تصور کو ہماری آسانی کے لیے خود واضح کر دیا ہے کہ یہ دین میں مکمل داخل ہونے کا نام ہے۔ یہ صرف مراسم عبودیت، نماز، روزہ، کا نام نہیں ہے کہ مسجد اور گھر میں نماز، روزہ ہو رہا ہو، جب کہ حاکمیت سرمایہ دارانہ ملوکیت زدہ، اخلاق باختہ نظام کی ہو۔ اللہ کی بندگی محض مسجد میں نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں ہو۔ ثقافت ہو یا فنون لطیفہ، معیشت ہو یا معاشرت، غرض ان تمام شعبوں میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو بلا شرکت غیر اپنا رب مانتے ہوئے اس کے نازل کردہ احکامات کا نفاذ ہو۔ جس طرح اسلام مکمل نظام حیات ہے ایسے ہی اسلامی ریاست بھی دین کی مکمل اقامت اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کو انفرادی اور اجتماعی معاملات میں نافذ کرنے کا نام ہے۔
یہی وجہ ہے کہ انسانوں کی حاکمیت کی بنیاد پر قائم State Nation یا قومی ریاست کا تصور جسے یورپ نے کلیسا کے پاپائیت کے نظام سے نجات کے لیے اپنایا۔ اسلام میں اس تصور کا کوئی مقام نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی تصورِ ریاست میں کسی مسلم پاپائیت کی بھی کوئی گنجا یش نہیں۔ چنانچہ کوئی خاص فرقہ اقتدار پر قابض ہو کر دوسروں کو اپنا محکوم نہیں بنا سکتا۔ گویا تھیا کریسی (Theocracy )یا مذہبی پاپائیت اسلام کی ضد ہے اور اسلامی ریاست کسی مسلکی فرقے کی حاکمیت کی جگہ صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی حاکمیت کے قیام کا ذریعہ ہے۔