انسان کی حیثیت اور اختیار

593

جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی باقی کائنات اور اس کی ایک ایک چیز کے لیے اور خود انسان کی طبیعی اور تکوینی زندگی کے لیے اٹل قوانین فطرت (Nature Laws of ) بنادیے ہیں جن کی پابندی اور پیروی ہی میں انسان کے لیے امن و فلاح اور ترقی و ارتقا ہے، عین اسی طرح سے انسان کی اخلاقی، سماجی اور اجتماعی زندگی کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ اٹل اور قطعی قوانین اور اصول و ضوابط موجود ہیں جن کی ٹھیک ٹھیک پیروی کرنے سے ہی انسانوں کو اس دنیا میں مکمل امن اور سکون کی زندگی اور مرنے کے بعد نجات اور سرخروئی حاصل ہوسکتی ہے، مگر اس دنیا میں طبیعیات و تکوین اور انسانیت کے لیے اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ قوانین قدرت (Laws of Nature) میں فرق یہ ہے کہ طبعی و تکوینی دائرے میں ان قوانین کو اللہ نے اپنی قوت قاہرہ سے بہ جبر نافذ کردیا ہے اور انسانیت (اخلاق، معاشرت، معیشت و سیاست وغیرہ) کے دائرے میں ان کو بہ جبر نافذ کرنے کے بجائے اولاد آدم کی مرضی پر چھوڑ دیا ہے کہ چاہے تو ان پر چلے اور نہ چاہے تو نہ چلے۔
چونکہ اس کائنات کا پورا طبعی نظام، خدا کے طبعی قوانین (Nature Laws of) کے تابع ہے۔ اس لیے ان قوانین کی خلاف ورزی کا نتیجہ تو فوراً سامنے آجاتا ہے۔ لیکن اخلاقی اور اجتماعی زندگی سے متعلق قوانین الٰہی کے خلاف ورزی کا بْرا انجام فوراً ظاہر نہیں ہوتا اور بعض اوقات برسوں اور صدیوں تک اور کبھی اس دنیا میں سرے سے ہی ظاہر نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں تک قوانین طبعی (سائنسی علوم) کا تعلق ہے، ان کو معلوم کرنے کا کام خود انسان ہی پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ مشاہدہ و تحقیق اور تجربات کے ذریعے ان کا علم خود حاصل کرے۔ لیکن اخلاقی اور اجتماعی زندگی سے متعلق قوانین الٰہی کی تعلیم اور تبلیغ کے لیے اللہ تعالیٰ نے کمال مہربانی سے کام لیتے ہوئے ہر ملک اور ہر قوم میں اپنے نبی اور رسول مقرر فرمائے، جنھوں نے نہ صرف یہ کہ خدا کی ساری کی ساری تعلیمات من و عن اور بلاکم و کاست اپنی اپنی قوم تک پہنچا دیں، بلکہ ان میں سے ایک ایک چیز پر عمل کرکے بھی دکھا دیا۔ اور تاریخ عالم گواہ ہے کہ جب کبھی اور جہاں کہیں نظام زندگی ’’انبیا کے بتائے ہوئے اصولوں پر قائم ہوا، یہ زمین جنت کا نمونہ اور امن و سلامتی کا گہوارا بن گئی۔ چنانچہ کم و بیش ہر قوم اور ہر ملک کے لوگوں میں جس گذشتہ، ’سنہری زمانے‘ کے قصے اور کہانیاں اب تک مشہور چلے آتے ہیں، یہ سب دراصل اسی زمانے سے متعلق ہیں، جب کہ اس قوم یا ملک کی زمام کار اور انتظام ملکی اللہ کے ان برگزیدہ بندوں یا ان کے ماننے والو ں کے ہاتھ میں تھے، یا پھر ان کے بتائے ہوئے اصولوں کے بیش تر حصے کو لوگ عملاً اختیار کیے ہوئے تھے۔