افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

388

حکومت الہٰیہ اور پاکستان
’’حکومت الہٰیہ‘‘ اور ’’پاکستان‘‘ کے فرق کے متعلق جو سوال آپ نے کیا ہے اس کا جواب آپ میری کتابوں میں پاسکتے تھے۔ مگر وہ شاید آپ کی نظر سے نہیں گزریں۔
پاکستان کے مطالبے کی بنیاد قومیت کے اصول پر ہے، یعنی مسلمان قوم کے افراد جہاں اکثریت میں ہوں وہاں انہیں اپنی حکومت قائم کرنے کا حق حاصل ہو۔ بخلاف اس کے تحریک حکومت الہٰیہ کی بنیاد اسلام کا اصول ہے۔ پاکستان صرف ان لوگوں کو اپیل کرسکتا ہے جو مسلمان قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن حکومت الہٰیہ کی دعوت تمام انسانوں کو اپیل کرسکتی ہے، خواہ وہ پیدائشی مسلمان ہوں یا پیدائشی ہندو یا کوئی اور… پاکستان صرف وہیں قائم ہوسکتا ہے، جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور اس بات کی بہت کم توقع ہے کہ اس تحریک کے نتیجے میں ایک خالص اسلامی حکومت قائم ہوگی، کیونکہ خالص اسلامی حکومت کا قیام بھی اخلاقی انقلاب پر منحصر ہے وہ پاکستان کی تحریک سے رونما نہیں ہوسکتا۔ لیکن حکومت الہٰیہ اس کی محتاج نہیں ہے کہ کسی جگہ مسلمان قوم کی اکثریت پہلے سے موجود ہو۔ وہ تو ایک اخلاقی اور ذہنی اور تمدنی انقلاب کی دعوت ہے اور سارے انسانوں کے لیے خود انہی کی فلاح کے چند اصول پیش کرتی ہے۔ اس دعوت کو اگر پنجاب یا سندھ سب سے پہلے آگے بڑھ کر قبول کرلیں تو حکومت الہٰیہ یہاں قائم ہوسکتی ہے اور اگر مدراس یا بمبئی یا کوئی دوسرا علاقہ پیش قدمی کرکے اسے قبول کرلے تو حکومت الہٰیہ وہاں قائم ہوسکتی ہے۔ ہم اس دعوت کو مسلمان، ہندو، سکھ، عیسائی ہر ایک کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ مسلمانوں کی کوئی قومی جائیداد نہیں ہے، بلکہ تمام مسلمانوں کی فلاح کے چند اصول ہیں، ہوسکتا ہے کہ پیدائشی مسلمان اس دعوت کو قبول کرنے میں کوتاہی دکھائیں اور پیدائشی ہندو آگے بڑھ اسے قبول کرلیں۔
٭…٭…٭
مسلمانوں کا مشترکہ مقصد
آپ کا یہ خیال بالکل صحیح ہے کہ اس وقت مسلمانوں میں ایک مشترکہ مقصد اور نصب العین کا فقدان ہندوؤں سے بھی کچھ زیادہ پایا جاتا ہے۔ درحقیقت یہ سب کچھ نتیجہ ہے اسلام سے بے نیاز ہو کر دینوی معاملات کو خواہشات نفس اور غیر مسلم طور طریقوں کی تقلید سے حل کرنے کی کوشش کا۔ اگر مسلمان خالص اسلامی اصول پر اپنے انفرادی واجتماعی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے تو آپ ان کو ایک ہی مقصد اور ایک ہی نصب العین کے پیچھے اپنی ساری قوتیں صرف کرتے ہوئے پاتے۔ آپ نے مسلمانوں کے اندر خیالات اور اعمال کا جو انتشار محسوس کیا ہے اسے میں بھی ایک مدت سے دیکھ رہا ہوں اور ہماری اسلامی تحریک کے ساتھ مسلمانوں کے مختلف طبقوں کا جو رویہ ہے وہ بھی میری نگاہ میں ہے۔ مگر ان چیزوں سے میرے اندر کوئی بد دلی نہیں ہوتی۔ کیونکہ ان باتوں کی تہہ میں جو اصلی خرابی ہے اسے میں اچھی طرح سمجھتا ہوں۔ صرف یہی نہیں کہ میں بد دل نہیں ہوں بلکہ ایک بڑی حد تک پر امید ہوں۔ جیسا کہ آپ نے خود بھی تحریر فرمایا ہے، مسلمانوں کا تعلیم یافتہ طبقہ بڑی تیزی کے ساتھ اس بات کو تسلیم کرتا جا رہا ہے کہ جو چیز میں پیش کر رہا ہوں، یہی اصلی اور خالص اسلام ہے۔ اس کے ساتھ میں یہ بھی دیکھ رہا ہوں کہ مسلمانوں کے موجودہ مختلف گروہ جس طرز پر کام کررہے ہیں اس سے ان کا فلاح کی منزل تک پہنچنا تقریباً محال ہے۔ لہٰذا اس امر کا قوی امکان ہے کہ مستقبل قریب میں مسلمان نوجوان ان مختلف گروہوں سے اور ان کی سیاست سے مایوس ہوجائیں گے اور ان کے لیے خالص اسلام کے اصولوں پر کام کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہے گا۔
(ترجمان القرآن، نومبر، دسمبر 44ء)