قرآن… فاتح مدینہ

258

سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ مدینہ کا فاتح قرآن ہے۔ ابو نعیم نے امام زہری سے مروی یہ حدیث بیان کی کہ انصار مدینہ نے سیدنا معاذ بن عفراء اور رافع بن مالک کو نبی اکرمؐ کی خدمت میں یہ پیغام دے کر مکے بھیجا کہ آپؐ اپنے ہاں سے ہمارے پاس ایک ایسا آدمی بھیج دیں جو لوگوں کو کتاب اللہ سنا کر دعوت دے۔ کیونکہ اس کی بات ضرور قبول کی جائے گی۔ چنانچہ نبی اکرمؐ نے سیدنا مصعبؓ بن عمیر کو ان کے ساتھ مدینے بھیج دیا۔
اسی مضمون کی حامل ایک تفصیلی روایت سیدنا عروہؓ بن زبیر سے مروی ہے کہ جب انصار قبول اسلام کے بعد یثرب چلے گئے تو اگلے سال حج کے موقع پر انھوں نے نبی اکرمؐ کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ دعوت دینے کے لیے کتاب اللہ کا عالم ان کے پاس بھیجیں۔ نبی اکرمؐ نے سیدنا مصعبؓ بن عمیر کو ان کے ساتھ یثرب روانہ کر دیا۔ وہ بنی غنم میں سیدنا اسعدؓ بن زرارہ کے ہاں ٹھہرے۔ وہ لوگوں کو نبی اکرمؐ کی باتیں بتاتے اور قرآن پڑھ کر سناتے، حتیٰ کہ ہر گھر میں کچھ نہ کچھ مسلمان ہوگئے اور ان کے سرداروں نے بھی اسلام قبول کر لیا۔ یثرب میں سیدنا مصعبؓ بن عمیر کو ’مْقرِی (قرآن پڑھانے والا )کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ (حلیۃ الاولیاء) طبرانی کی ایک روایت کے مطابق سیدنا مصعبؓ نے قرآن سنا کر انھیں نبی اکرمؐ اور دین کی طرف دعوت دی۔
سیدنا مصعبؓ بن عمیر نے قرآن کے ذریعے کس طرح دعوت دی اور اس کے کیا اثرات ظاہر ہوئے؟ اس بارے میں عبداللہ بن ابی بکر کی ایک طویل اور دلچسپ روایت اوّلین سیرت نگار ابن اسحاق نے بیان کی ہے۔ ہم اختصار کے ساتھ وہ حصہ بیان کریں گے جو براہِ راست ان کی دعوت بالقرآن سے متعلق ہے:
سیدنا اسعدؓ بن زرارہ ایک دن سیدنا مصعبؓ بن عمیر کو تبلیغ کے لیے بنو عبدالاشہل اور بنو ظفر کے باغات میں لے گئے۔ وہ مرق نامی کنویں پر بیٹھے تھے۔ سیدنا سعدؓ بن معاذ اور سیدنا اْسیدؓ بن حضیر ان خاندانوں کے سردار تھے اور اس وقت تک مشرک تھے۔ انھیں جب اپنے باغ میں سیدنا اسعدؓ بن زرارہ اور سیدنا مصعبؓ کے مجلس لگانے کی خبر ملی تو سعد بن معاذ نے اپنے دوست اْسَید سے کہا: ’’تم ان دونوں آدمیوں کے پاس جا کر انھیں کہو کہ وہ ہمارے آدمیوں کو بیوقوف نہ بنائیں اور یہاں سے چلتے بنیں۔ اسعدؓ بن زرارہ سے اگر میری رشتے داری نہ ہوتی تو میں یہ کام خود کر لیتا‘‘۔ اسید بن حضیر اپنا نیزہ لے کر اہل مجلس کی طرف گئے اور مجلس سے دْور کھڑے ہو کر اسعدؓ اور مصعبؓ کو گالیاں بکنا شروع کر دیں اور کہا کہ اگر تم کو جان عزیز ہے تو یہاں سے چلتے بنو۔
سیدنا مصعبؓ نے نہایت تحمل سے کہا: ’’ذرا بیٹھ کر ہماری بات تو سن لو۔ اگر پسند نہ آئے تو ہم آپ کی ناپسندیدہ بات سے رک جائیں گے‘‘۔ اسید نے جواباً کہا: ’’تم نے انصاف کی بات کی‘‘۔ یہ کہتے ہوئے نیزہ زمین میں گاڑ کر مجلس میں بیٹھ گئے۔ مصعبؓ نے اسلام کے بارے میں ان سے بات کی اور انھیں قرآن پڑھ کر سنایا۔ یہ دونوں حضرات فرماتے ہیں کہ قرآن سنتے ہی اْسید کے چہرے کی چمک اور رقت سے انھیں محسوس ہوگیا کہ یہ اسلام ضرور قبول کر لیں گے۔ چنانچہ اْسید نے کہا: یہ کتنا اچھا اور عمدہ کلام ہے۔ پھر کلمۂ شہادت پڑھ کر داخلِ اسلام ہوگئے۔ اس کے بعد اْسیدؓ نے ان دونوں سے کہا: ’’میرے پیچھے ایک شخص ہے، میں اسے تمھارے پاس بھیجتا ہوں۔ اگر اس نے تمھاری بات مان لی تو ان کے قبیلے کا کوئی فرد بھی ان سے پیچھے نہ رہے گا‘‘۔ یہ دیکھ کر اْسیدؓ بن حضیر جلدی جلدی سعد بن معاذ کے پاس گئے اور انھیں ایسی بات کہی کہ وہ مجلس کی طرف چل پڑے۔
سعد بن معاذ نے بھی کھڑے کھڑے انھیں بْرا بھلا کہا اور پھر اسعدؓ بن زرارہ سے کہا: ’’اللہ کی قسم! اگر تم میرے خالہ زاد بھائی نہ ہوتے تو تم ہمارے محلے میں ایسا کرنے کا سوچ بھی نہ سکتے‘‘۔ مصعبؓ نے ان سے کہا: ’’اللہ کے بندے بیٹھ کر ہماری بات تو سن لو، اگر پسند آئے تو قبول کر لینا اور اگر پسند نہ آئے تو ہم آپ کی ناپسندیدہ بات پر اصرار نہیں کریں گے‘‘۔ یہ سن کر سعد نے کہا: ’’آپ نے انصاف کی بات کہی‘‘۔ یہ کہہ کر انھوں نے اپنا نیزہ زمین میں گاڑا اور مجلس میں بیٹھ گئے۔ سیدنا مصعبؓ نے اسلام پیش کیا اور انھیں قرآن پڑھ کر سنایا۔ موسیٰ بن عقبہ کا بیان ہے کہ انھوں نے سورئہ زخرف کی ابتدائی آیات سنائیں۔ قرآن سنتے ہی سعدؓ کے چہرے کی چمک اور نرمی سے دونوں مبلّغین نے محسوس کر لیا کہ یہ بھی اسلام قبول کر لیں گے۔ چنانچہ انھوں نے کلمۂ شہادت پڑھا۔ اور شام تک بنی عبدالاشہل کے تمام مرد وعورت مسلمان ہو چکے تھے۔ (البدایہ)
ابن اسحاق کے مطابق یثرب کے قبیلہ بنو سلمہ کے ایک سردار عمرو بن جموع کے بیٹے معاذ مسلمان ہوگئے، لیکن عمرو بن جموع سختی سے بت پرستی پر قائم رہے۔ ان کے بیٹے ان کے بت کو غائب کر دیتے اور وہ پھر تلاش کر کے اس کی پوجا کرتے بالآخر بت کی اس بے بسی سے مایوس ہوگئے اور ایک دن اپنے بیٹے سے کہنے لگے: ’’اس آدمی (محمدؐ) کا جو کلام تم سنتے ہو، وہ مجھے بھی سناؤ‘‘۔ ان کے بیٹے معاذ نے سورئہ فاتحہ پڑھ کر سنائی تو عمرو نے کہا: ’’کیا ہی حسین و جمیل کلام ہے! کیا ان کا سارا ہی کلام ایسا ہے؟‘‘ بیٹے نے کہا: ابّا جان، اس سے بھی زیادہ اچھا ہے‘‘۔ چنانچہ عمرو بن جموع مسلمان ہو گئے۔ (حیاۃ الصحابہ)
سیدنا ابو امامہؓ فرماتے ہیں کہ مجھے نبی اکرمؐ نے میری قوم کی طرف دعوت دین دینے کے لیے بھیجا۔ میں ان کے پاس پہنچا تو انھوں نے مجھے خوش آمدید کہا۔ بعد ازاں میں نے ان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی۔ اسی دوران کھانے کا ایک بڑا برتن آیا جس کے گرد سب کھانے کے لیے بیٹھ گئے۔ انھوں نے مجھے بھی کھانے کی دعوت دی تو میں نے کہا: ’’میں ایسی ذاتِ گرامی کی طرف سے آیا ہوں جو اللہ کا نازل کردہ یہ حکم سناتے ہیں کہ جو جانور ذبح نہ کیا گیا ہو، وہ حرام ہے‘‘۔ انھوں نے پوچھا: ’’وہ حکم کیسے ہے؟‘‘ میں نے کہا: ’’اللہ کی طرف سے یہ آیت نازل ہوئی ہے:
’’تم پر حرام کیا گیا مْردار، خون، سور کا گوشت، وہ جانور جو خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، وہ جو گلا گھٹ کر، یا چوٹ کھاکر، یا بلندی سے گر کر، یا ٹکر کھا کر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو سوائے اْس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کر لیا اور وہ جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو۔ نیز یہ بھی تمھارے لیے ناجائز ہے کہ پانسوں کے ذریعے سے اپنی قسمت معلوم کرو۔ یہ سب افعالِ فسق ہیں‘‘۔ (المائدہ: 3)
میں ان کو اسلام کی دعوت دینے لگا لیکن وہ اس کا انکار کرتے رہے بالآخر کچھ عرصے بعد وہ مسلمان ہوگئے۔ (طبرانی ، مستدرک حاکم)