آزادی کا ماتم اور غلامی کا جشن

1188

اقبال نے کہا ہے
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
اقبال کی پوری شاعری معرکہ آرا ہے مگر کہیں کہیں انہوں نے انسانی نفسیات پر ایسی حکیمانہ نظر ڈالی ہے کہ انسان ششدر رہ جاتا ہے۔ غلامی کو لوگ صرف سیاسی مسئلہ سمجھتے ہیں مگر اقبال نے اپنے مذکورہ بالا شعر میں غلامی کو سیاست سے بہت آگے بڑھ کر دیکھا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ غلامی کا تجربہ اتنا ہولناک ہوتا ہے کہ انسان کیا قوموں کا ضمیر تک بدل کر رہ جاتا ہے۔ ان کے لیے جو خوب ہوتا ہے وہ ناخوب ہوجاتا ہے اور جو چیز ناخوب ہوتی ہے وہ غلامی کے تجربے کے زیر اثر خوب نظر آنے لگتی ہیں۔ برصغیر میں اس کی سب سے بڑی مثال سرسید تھے۔ مسلمانوں کا مذہب، تہذیب، تاریخ، علوم و فنون بے مثال تھے مگر غلامی کے تجربے نے سرسید کے ضمیر کو بدل کر رکھ دیا۔ چناں چہ انہوں نے قرآن کا انکار کردیا۔ انہوں نے حدیث کو مسترد کردیا۔ انہوں نے تفسیر کی پوری روایت پر خط تنسیخ پھیر دیا۔ انہوں نے اجماع کے اصول کو ناقابل قبول قرار دے دیا۔ انہوں نے مسلمانوں سے کہا اردو، فارسی اور عربی کو چھوڑو انگریزی اور فرانسیسی سکھو۔ انہیں انگریزوں کی ہر چیز اچھی لگنے لگی۔ انہوں نے انگریزوں کی تہذیب کو سراہا۔ ان کے علوم و فنون پر رال ٹپکائی، ان کے لباس کی تعریف کی، ان کی غذائوں کو سراہا، سرسید کو انگریزوں کے کتے تک ’’مہذب‘‘ نظر آنے لگے۔ سرسید کی شخصیت کا یہ رخ ان کے ساتھ رخصت نہیں ہوا۔ سرسید ایک فرد نہیں تھے وہ ایک ذہن تھے، ایک نفسیات تھے، ایک تناظر تھے۔ چناں چہ سرسید آج بھی کروڑوں لوگوں میں زندہ ہیں۔ اس لیے کہ برصغیر کے کروڑوں مسلمان، سرسید کے ذہن، ان کی نفسیات اور ان کے تناظر کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ سرسید انگریزوں سے اتنا مرعوب تھے کہ انہوں نے انگریزوں کی غلامی کو اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا۔ اسے سراہا بلکہ اس کا جشن منایا۔ آج بھی ہمارے درمیان ایسے لوگ موجود ہیں جو مغرب کی غلامی پر فخر کرتے ہیں۔ جو مغرب سے آزادی کا ماتم کرتے ہیں اور مغرب کی غلامی کا جشن مناتے ہیں۔ ذرا رئوف کلاسرا صاحب کے کالم کا یہ اقتباس تو ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ’’اس خطے میں پچھلے چند ماہ میں جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ان کے اثرات اب سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔
پہلے کابل میں طالبان نے کنٹرول سنبھال لیا تو اب پشاور شہر کی میئر شپ اس جماعت کے پاس چلی گئی ہے جو طالبان کی کھلم کھلا حامی رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کابل اور پشاور میں جس طرح تبدیلیاں آئی ہیں ان میں کیا فرق ہے اور ان کے دونوں ممالک پر کیا اثرات ہوں گے؟
فارن آفس میں صحافیوں اور اینکرز کو دی جانے والی بریفنگ میں شاہ محمود قریشی جس طرح افغانستان میں لوگوں کی بگڑتی حالت اور وہاں بھوک اور افلاس کی تصویر کشی کررہے تھے اس سے میرے ذہن میں ایک ہی سوال اُبھر رہا تھا کہ یہ ہم ہی تھے جنہیں سب سے زیادہ جلدی تھی کہ دنیا کے پچاس ممالک جنہوں نے افغانستان کو سنبھالا ہوا تھا اور اس کی اکانومی اچھی بری چلا رہے تھے فوری طور پر وہاں سے چلے جائیں اور افغانوں کو مرضی سے حکومت کرنے دیں۔ اب جب امریکن اور یورپین افغانستان کو افغانوں کے حوالے کرکے چلے گئے ہیں تو پتا چلا ہے کہ نئے حکمرانوں سے افغانستان نہیں چل پا رہا اور ہم بھی بے چین ہیں اور چیخیں مار رہے ہیں۔ جو نقشہ شاہ محمود قریشی نے کھینچا اس سے واضح تھا کہ پہلے ہمیں وہاں سول وار اور خون خرابے سے ڈرایا گیا تھا، سول وار تو نہ ہوئی لیکن اس سے زیادہ خطرناک بات ہورہی ہے کہ بھوک اور غربت نے وہاں ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ افغانستان میں ایک نیا انسانی بحران جنم لے رہا ہے جس کا براہ راست اثر پہلے پاکستان، ایران اور سینٹرل ایشیا کی ریاستوں پر پڑے گا اور پھر پوری دنیا اس سے متاثر ہوگی۔ مطلب یہ تھا کہ بہتر ہے افغان اپنے ملک کے اندر رہیں نہ کہ وہ خطے کے ممالک کا رخ کریں اور پھر وہاں سے یورپ یا امریکا جانے کی کوشش کریں۔ بہتر راستہ یہی ہے کہ افغانوں کا ان کے ملک کے اندر ہی خیال رکھا جائے، اسی میں سب کی بہتری ہے‘‘۔ (روزنامہ دنیا۔ 27 دسمبر 2021ء)
اس سے بہت پہلے رئوف کلاسرا برصغیر پر انگریزوں کے قبضے کو سراہا چکے ہیں۔ ان کے بقول برصغیر پسماندہ تھا، انگریزوں نے اسے ’’جدید‘‘ بنایا، اسے ڈاک تار کا نظام دیا، ریلوے دی، ریڈیو دیا، کاشت کاری کے جدید طریقے دیے، نئے علوم و فنون دیے۔ رئوف کلاسرا کے بقول انگریز نہ ہوتے تو ہم پسماندہ کے پسماندہ رہ جاتے۔
رئوف کلاسرا کے مذکورہ بالا اقتباسات کو دیکھا جائے تو رئوف کلاسرا کو اس بات کا بہت غم ہے کہ طالبان نے امریکا کی مزاحمت کیوں کی اور اسے جنگ میں شکست سے دوچار کیوں کیا۔ رئوف کلاسرا کی نظر میں افغانستان پر امریکا کا قبضہ تو ایک رحمت تھا۔ اس رحمت کے سہارے ملک چل رہا تھا، افغانستان میں ڈالرز کی ریل پیل تھی، امریکا نے افغانستان میں یونیورسٹیاں بنائیں، ٹیلی وژن متعارف کرایا، امریکا جب تک افغانستان پر قابض تھا افغانیوں کے مزے آئے ہوئے تھے، اب امریکا افغانستان سے چلا گیا ہے تو طالبان سے ملک نہیں چل رہا۔
امریکا افغانستان پر 20 سال قابض رہا اور اس نے افغانستان پر دو ہزار ارب ڈالر صرف کیے، مگر امریکا نے افغانستان میں کارخانہ لگائے، نہ افغانستان کی زراعت کو جدید بنایا، نہ اس نے افغانستان کے معدنی وسائل کو نکالا، نہ اس نے افغانستان کی برآمدات کو بڑھایا، نہ اس نے خواندگی کو عام کیا، نہ صحت کی سہولتوں کو عام کیا، نہ اس نے ڈیم بنائے، نہ اس نے سڑکوں کا جال بچھایا۔ امریکا 20 سال تک صرف افغانوں کو اپنا پالتو بنانے میں لگا رہا۔ وہ صرف افغانوں کو فتح کرنے کے لیے کوشاں رہا۔ لیکن امریکا سے یہ کام بھی نہ ہوا۔ اس کے باوجود بھی رئوف کلاسرا امریکا کے قبضے کے لیے جواز جوئی کررہے ہیں اور انہیں طالبان کی جدوجہد آزادی زہر لگ رہی ہے۔ دیکھا جائے تو رئوف کلاسرا کا عقیدہ یہ ہے کہ آدمی خواہ غلام ہو مگر اس کا پیٹ بھرا ہوا ہو۔ اقبال کا شعر یاد آیا۔
دل کی آزادی شہنشاہی شکم سامانِ موت
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم
رئوف کلاسرا جیسے لوگوں کو اقبال کے اس شعر میں تبصرہ کرنے کے لیے کہا جائے گا تو وہ اس شعر کا بھی مذاق اڑائیں گے۔ وہ کہیں گے دل کی آزادی ایک خیالی پلائو ہے جب کہ انسان کا پیٹ ایک ٹھوس حقیقت ہے۔ چناں چہ آدمی کا دل آزاد ہو یا نہ ہو اس کا پیٹ بہرحال بھرا ہونا چاہیے۔ لیکن یہ پست خیالی کی ایک صورت ہے۔ انسان جس چیز کو زندگی کہتا ہے وہ آزادی کے سوا کچھ نہیں اور غلامی کا تجربہ موت کے تجربے سے بھی زیادہ ہولناک ہے۔ ایک بار پھر اقبال یاد آئے۔ انہوں نے فرمایا ہے۔
غلامی کیا ہے ذوقِ حُسن و زیبائی سے محرومی
جسے زیبا کہیں آزاد بندے ہے وہی زیبا
غلاموں کی بصیرت پر بھروسا کر نہیں سکتے
کہ دنیا میں فقط مردانِ حُر کی آنکھ ہے بینا
رئوف کلاسرا کا یہ خیال بھی غلط ہے کہ برصغیر انگریزوں کی آمد سے قبل پسماندہ تھا۔
مغربی مورخ ولیم ڈیل ریمپل نے اپنی تصنیف ’’دی انارکی‘‘ میں لکھا ہے کہ انگریز جب برصغیر میں آئے تو برصغیر عالمی پیداوار کا 25 فی صد پیدا کررہا تھا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ برصغیر اس وقت کے اعتبار سے ترقی یافتہ بھی تھا اور امیر بھی۔ البتہ انگریزوں نے برصغیر کے وسائل کو لوٹ کر اسے غریب بنادیا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب انگریز برصغیر میں آئے برصغیر عالمی پیداوار کا 25 فی صد پیدا کررہا تھا اور جب انگریز برصغیر سے گئے تو برصغیر عالمی پیداوار کا صرف ساڑھے 4 فی صد پیدا کررہا تھا۔ بھارت کی ممتاز محقق اُتسا پٹنائک کی تحقیق بھی اس سلسلے میں اہمیت کی حامل ہے۔ اتساپٹنائک کے مطابق انگریز برصغیر سے 45 ہزار ارب ڈالر لوٹ کر لے گئے۔ اس وقت برطانیہ کی مجموعی قومی پیداوار 2 ہزار ارب ڈالر ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انگریزوں نے برصغیر کے خزانے پر کتنا بڑا ڈاکا مارا۔ حیرت ہے کہ اس کے باوجود رئوف کلاسرا جیسے لوگ برصغیر پر انگریزوں کے قبضے کو ’’رحمت‘‘ بناکر پیش کرتے ہیں۔ وہ آزادی کا ماتم کرتے ہیں اور غلامی کا جشن مناتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں سرسید کی فکر ان کی ذہنیت اور ان کا تناظر عام ہے۔ چناں چہ پاکستان میں مغرب پرستی بھی عام ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ہم اسلام، اسلام اور پاکستان، پاکستان تو بہت کرتے ہیں مگر پاکستانیوں کی عظیم اکثریت کے لیے امریکا یا یورپ کے کسی ملک میں آباد ہونا ایک بڑا خواب ہے۔ امریکا اور یورپ اگر اپنی سرحدیں کھول دیں تو پاکستان خالی ہوجائے گا۔ امریکا اور یورپ میں مسلمان دوسرے درجے کے شہری ہیں مگر اس کے باوجود پاکستانیوں کی عظیم اکثریت امریکا اور یورپ میں آباد ہونے کے لیے بیتاب ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انگریزوں کی غلامی ہمارے اندر کس حد تک اُتری ہوئی ہے۔
تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ جو لوگ نوآبادتی طاقتوں کی مزاحمت نہیں کرتے۔ وہ مقامی آمروں کے آگے بھی ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ یہ ہے کہ جنرل ایوب نے مارشل لا لگایا اور اس مارشل لا کو ملک کی اعلیٰ عدالت نے قبول کیا۔ اس مارشل لا کے خلاف دس سال تک کوئی مزاحمت نہیں ہوئی۔ جنرل ایوب نے جو چاہا کیا۔ انہوں نے ایک اسلامی ملک کو سیکولر بنانا چاہا، کسی نے مزاحمت نہیں کی، انہوں نے ذرائع ابلاغ کا گلا گھونٹ کر رکھا کسی نے ان کو چیلنج نہیں کیا، جنرل یحییٰ نے ملک کو دو ٹکڑے کیا کسی نے ان کا کچھ نہ بگاڑا۔ وہ عزت کے ساتھ زندہ رہے اور مرنے کے بعد پورے فوجی اعزاز کے ساتھ ان کو دفنایا گیا۔ جنرل ضیا الحق دس سال تک ملک کی تقدیر سے کھیلتے رہے۔ کسی نے انہیں کچھ نہ کہا۔ وہ آئین کی تذلیل کرتے رہے کسی نے ان کا ہاتھ نہ پکڑا۔ جنرل ضیا الحق کے خلاف ایم آر ڈی کی تحریک چلی مگر وہ سندھ تک محدود رہی۔ پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان اس تحریک کے دائرے سے باہر کھڑے رہے۔ جنرل پرویز دس سال تک ملک و قوم پر مسلط رہے۔ کسی نے ان کی مزاحمت نہ کی، ان کے خلاف وکلا نے تحریک چلائی تو اس لیے کہ جنرل کیانی اس تحریک کی پشت پر کھڑے ہوئے تھے۔ یہ صورت حال اس امر کا ثبوت ہے کہ ہمارے قومی مزاج میں آمریت کی مزاحمت کی خواہش موجود نہیں۔ ہمارے مزاج میں مزاحمت ہوتی تو پیپلز پارٹی بھٹو خاندان کی جاگیر نہ ہوتی۔ نواز لیگ شریف خاندان کی رکھیل نہ بنی ہوئی ہوتی۔ تحریک انصاف عمران خان کی جیب کا رومال نہ ہوتی۔ یہ تجربہ ہمارے سامنے کی چیز ہے کہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم 30 سال تک کراچی میں دہشت گردی کرتے رہے۔ بھتا خوری میں ملوث رہے۔ مگر ان کے خلاف جماعت اسلامی اور روزنامہ جسارت کے سوا کسی نے مزاحمت نہ کی۔ ارشاد احمد حقانی ملک کے بڑے کالم نگار تھے۔ وہ لاہور میں مقیم تھے۔ ایک بار ان سے ملاقات ہوئی تو ہمارے عزیز دوست یحییٰ بن زکریا نے ان سے کہا کہ آپ ہر موضوع پر لکھتے ہیں الطاف حسین کے خلاف نہیں لکھتے۔ کہنے لگے میں نے سنا ہے الطاف حسین اپنے خلاف بات کرنے والوں کو مروا دیتا ہے۔ اصل بات وہی ہے جب قوم میں آزادی کا ماتم کرنے والوں کی اکثریت ہو اور غلامی کا جشن منانے والے کروڑوں میں ہوں تو پھر یہی ہوتا ہے۔ پھر اس قوم میں رئوف کلاسرا جیسے لوگ ہی پیدا ہوتے ہیں۔