دھرنا 15 ویں روز میں داخل۔ اتوار کو شاہراہ بند کرنے کا اعلان ۔ شہر میں کئی مقامات پر دھرنے

9097
کراچی: امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن سندھ اسمبلی کے باہر دھرنے میں موجود خواتین سے خطاب کررہے ہیں

کراچی (اسٹاف رپورٹر)سندھ میں کالے بلدیاتی قانون کے خلاف جماعت اسلامی کراچی کا دھرنا 15ویں دن میں داخل ہوگیا، شہر کے مختلف علاقوں میں احتجاج ،دھرنا دیا گیا، دھرنے میں شہر بھر سے خواتین کی شرکت وجوش وخروش میں مسلسل اضافے نے احتجاج کو ایک نیا جذبہ فراہم کردیا ہے ، گزشتہ روز بھی شہر کے مختلف علاقوں سے خواتین بچوں کے ہمراہ دھرنے میں اظہار یکجہتی کے لیے پہنچیں، دھرنے میں مختلف سیاسی ،سماجی ودیگر پارٹیوںسمیت مختلف وفود نے شرکت کی۔حکومت کی جانب سے مذاکرات سے فرار پر امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن کا اتوار کو شاہراہ فیصل بلاک کرنے کا اعلان، اتوار کو تمام اضلاع سے ریلیاں نکالی جائیں گی۔ جمعرات کو دھرنے کے چودہویں روز امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے خواتین سیشن اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری اور آصف زرداری کی ہدایت پر مذاکرات کا وعدہ کرکے جانے والی وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ کی سربراہی میں مذاکراتی کمیٹی 4دن سے مفرور ہے ، اتوار کے دن شاہراہ فیصل 3بجے مکمل بلاک کیا جائے گا ، کراچی کے تمام اضلاع سے ریلیاں نکالی جائیں گی اور شاہراہ فیصل پر انسانوں کے سر ہی سر ہوں گے ، ہم وڈیروں کے آگے مزاحمت کریں گے اپنے بچوں کا مستقبل ان کے ہاتھوں میں نہیں چھوڑیں گے ،جماعت اسلامی کراچی کو وڈیروں اور جاگیرداروں کے قبضے سے بچائے گی، ہماری مائیں بہنیں بھی مضبوط اعصاب کے ساتھ دھرنے میں موجود ہیں ، سندھ اسمبلی کے سامنے مرکزی دھرنا جاری ہے جبکہ شہر کے مختلف مقامات پر دھرنے دیے جارہے ہیں ،سندھ اسمبلی میں بیٹھے ہوئے ارکان کہتے ہیں کہ ہماری اکثریت ہے ، کراچی کا ہر فرد جانتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی اندرون سندھ میں اکثریت طاقت کے بل بوتے پر حاصل کی جاتی ہے ، دیہی وڈیرے ہاری اور کسانوں کا استحصال کرکے اب کراچی پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں ،سندھ اسمبلی میں بیٹھے ہوئے وڈیرے شہریوں کو شناختی کارڈ بنا کر نہیں دے سکے۔ انہوں نے کہاکہ 14 دن سے جاری دھرنے میں شہر بھر کی خواتین گھروں سے نکل کر سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور ہیں ،خواتین دھرنے سے واپس جاکر گلی محلوں اور ملازمت کی جگہ پر جماعت اسلامی کے پیغام کو پہنچائیں، بلدیاتی اداروں پر صوبائی حکومت کے قبضے کا مقصد من پسند بھرتیاں کرنا ہے، بلدیاتی اداروں میں شہر کے نوجوانوں کی ملازمتوں کے دروازے بند ہیں۔ انہوں نے کہاکہ وزیر اعظم صاحب ہمیں خیرات میں چند بسیں نہیں بلکہ ٹرانسپورٹ کا پورا نظام چاہیے، پاکستان میں جتنا بھی ترقیاتی کام ہوتا ہے اس میں 50فیصد حصہ کراچی کا ہوتا ہے ، جماعت اسلامی نے شہر کو تعمیر کیا ہے ، ترقی دی ہے اور اس کو روشن کیا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ صوبائی حکومت کے کچھ وزرا مذاکرات کے عمل کوخراب کر رہے ہیں ، کیا پیپلزپارٹی کی قیادت ان کی حرکتوں سے واقف ہے؟ ،کیا یہ الزامات قیادت کے ایما پرلگا رہے ہیں؟ امیرجماعت اسلامی نے کہاکہ ہم مظلوموں کی آواز بن رہے ہیں ،آج بھی کارکنان وعوام مختلف علاقوں میں دھرنے دیتے ہوئے اسمبلی پہنچ رہے ہیں ،اب یہ تحریک آگے بڑھے گی ،بہت جلد شاہراہ فیصل پر تاریخی مارچ کریں گے ،دھرنے میں روزانہ ہزاروں خواتین شریک ہورہی ہیں۔حافظ نعیم الرحمن نے مزیدکہاکہ دیہی سندھ میں 15 سے 20 ہزار کی آبادی پر یونین کونسل بنائی گئی ،کراچی میں بھی 15 سے 20 ہزار کی آبادی پر یونین کونسل ہونی چاہیے ،ہمارا مطالبہ ہے کہ کراچی کے میئر کو بااختیار ہونا چاہیے ،آج محکمہ صحت اور تعلیم زبوں حالی کا شکار ہے ،ہم سے پریشان عوام رجوع کر رہے ہیں ،کل کشمیر روڈ پر ایک نوجوان کے قتل کا دل خراش واقعہ پیش آیا،نوجوان کو گھر کی دہلیز پر دن دہاڑے گولی مار دی گئی ،ہم وزیراعلیٰ سے پوچھتے ہیں کہ آپ کی اسپیشل فورس کیا کر رہی ہے ،جس پر بھاری بجٹ بھی خرچ ہورہاہے۔انہوں نے کہاکہ دھرنے میں شہر کے مختلف علاقوں سے خواتین بڑی تعداد میں شریک ہیں، جدوجہد میں خواتین کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے ،مہنگائی میں ہوشربااضافے کے خلاف جدوجہد میں خواتین برابر کی شریک ہیں ،ملک کا نظام مستقبل کے راستوں میں رکاوٹ بنا ہواہے ، موجودہ نظام میں ہمارے بچوں کا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے ،کراچی کے شہری پنے بچوں کو اچھی اور معیاری تعلیم دلانے سے قاصر ہیں ، 35سال کراچی کے انتہائی خراب حالت میں گزرے ہیں ۔ موجودہ حکمرانوںنے پوری قوم کو مہنگائی کے بوجھ تلے دبادیا ہے ،متوسط گھرانے سے وابستہ افراد اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں پڑھانے پر مجبور ہیں ، بد قسمتی سے سرکاری اداروں کی خستہ حالی سب کے سامنے ہے،حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے شہریو ں کے لیے کوئی روزگار میسر نہیں ہے ،روزگار اور تعلیم کے مواقع میسر نہیں ہیں، پورے سندھ میں سرکاری سطح پر صرف 2 جنرل یونیورسٹیاں ہیں ، یونیورسٹی میں 16ہزار طلبہ کی گنجائش ہے جبکہ سالانہ 40ہزار طلبہ پاس آؤٹ ہوتے ہیں ،داخلوں سے محروم بچے کہاں جائیں ؟۔کالاقانون کہنے کی وجہ یہی ہے کہ شہریوں کو محرومیوں اور مظلومیوں کی جانب دھکیلا جارہا ہے ، سندھ حکومت کے اس کالے قانون کے تحت بلدیاتی انتخابات ہوبھی گئے عوام کو مسائل کے حل کے لیے سندھ سیکرٹریٹ کے دھکے کھانے پڑیں گے جو کرپشن کا اڈہ بن گیا ہے ،سندھ حکومت کی سرپرستی میں جعلی ڈومیسائل ہی نہیں جعلی ڈگریوں پر بھی بھرتیاں کی جارہی ہیں ،ایم کیو ایم نے پانچویں قومیت کا نعرہ لگایا مگر شناخت توکیا شہریوںکے شناختی کارڈ تک نہیں بنواسکی ،نادرا کے مسائل جماعت اسلامی نے حل کرائے، سندھ حکومت کی نگرانی میں 6سال سے تعطل کا شکار اورنج لائن منصوبے کو فی الفور مکمل اور فعال بنایاجائے ، سندھ حکومت ساڑھے 3 کروڑ سے زاید عوام کے لیے پانی کا ایک منصوبہ بھی نہیں بناسکی، وفاقی حکومت بھی صوبائی حکومت کی طرح صرف کراچی سے لوٹ کھسوٹ کرنا چاہتی ہے ،تمام حکمران جماعتوں نے کراچی کے عوام کااستحصال کیا ہے ، دھرنا ہمارے مستقبل کی ضمانت ہے کہ ہم جدوجہد کریں ۔