ٹیکسٹائل پالیسی کی واپسی صنعت کو تباہ کر دے گی

812
Qazi Javed Picture Jasarat Newspaper Karachi

حکومت کا ای سی سی کی منظور شدہ ٹیکسٹائل پالیسی 2020-25 کو واپس لینے اور ٹیکسٹائل کی برآمدات کو بڑھانے کے لیے متعلقہ پالیسی اقدامات کو واپس لینے کا فیصلہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے مہلک یوٹرن ثابت ہوگا جو نہ صرف ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کی محنت اور کوششوں کو سبوتاژ کرے گا بلکہ ملک کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہوگا۔ تجارت اور برآمدات کو بڑھانے کی ذمے دار وزارت تجارت کو خزانہ اور توانائی کی وزارتوں جو معاشی خوشحالی میں کوئی عملی کردار ادا نہیں کر رہی ہے کی طرف سے دی جانے والی ہدایات کو ٹیکسٹائل انڈسٹری مسترد کرتی ہے۔ ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے گزشتہ روز پرنٹ میڈیا میں شائع ہونے والی اس خبر پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ وزارت خزانہ کے سخت اقدامات کے نتیجے میں وزارت تجارت ٹیکسٹائل پالیسی کو واپس لینے پر مجبور ہوگئی ہے جو انتہائی غیر دانش مندانہ اور قابل مزمت ہے کیونکہ یہ ناپسندیدہ اقدام اس وقت اٹھایا گیا ہے جب ٹیکسٹائل کی برآمدی صنعت اپنی برآمدات کو بڑھانے کے لیے اپنی پوری صلاحیت کے ساتھ ٹیک آف موڈ میں تھی۔ یہ خبر ایک ایسی حکومت کی طرف سے انتہائی حیران کن طور پر سامنے آئی جو کاروبار اور برآمدات دوست ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔ متنوع اور بے مثال چیلنجز اور مسائل کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ انڈسٹری کے لیے یہ خبر ایک زلزلے کی طرح آئی جس نے برآمد کنندگان کے اعتماد کو شدید دھچکا لگایا ہے اور برآمد کنندگان اس اقدام کو ٹیکسٹائل کی صنعت کے تابوت میں آخری کیل کے طور پر دیکھتے ہیں۔ وفاقی وزارت تجارت قومی برآمدات کو بڑھانے کے لیے برآمد کنندگان کی مدد اور سہولت کے لیے تمام عملی اقدامات اور ان پر عمل درآمد کے لیے سخت محنت کر رہی ہے جبکہ دوسری جانب وزارت توانائی (پٹرولیم ڈویژن) نے اپنی بد انتظامی اور ناقص منصوبہ بندی کے وجہ سے گیس بحران کی شکل میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیں اور اب وزارت خزانہ کی جانب سے منظور شدہ ٹیکسٹائل پالیسی 2020-25 کے تحت ٹیکسٹائل انڈسٹری کو مالی مراعات میں خلل ڈالنے کی سخت شرائط برآمدات کو بڑھانے کے لیے حکومت کی تمام کوششوں کو ناکام بنا دے گی اور ٹیکسٹائل کے صنعت کاروں کو بھی مجبور کر دے گی کہ وہ حکومت کے متضاد اور غیر متوازن اقدامات کی وجہ سے اپنی صنعتوں کو خطے میں کسی ممالک میں منتقل کرنے کے لیے مجبور ہو جائیں جہاںکی حکومت اپنے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے ساتھ ساتھ اپنی مقامی صنعتوں کو انتہائی پرکشش مراعات بھی دے رہے ہیں۔ ٹیکسٹائل کے برآمد کنندگان مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں اور ایک کے بعد ایک منفی عنصر کے بوجھ تلے دبے رہنے کی وجہ سے اپنے کاروبار کو ایسے ممالک میں منتقل کرنے کے منصوبے بنانے پر مجبور ہو رہے ہیں جہاں وہ سکون اور عزت کے ساتھ اپنے کاروبار کو بڑھا سکیں۔
ٹیکسٹائل پالیسی 2019-24 کے لیے تجاویز اور سفارشات مرتب کرنے کے لیے معروف ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز اور ایسوسی ایشنوں کے ساتھ مشاورتی اجلاس منعقد کیے اور پاکستان بھر سے متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے نتیجے میں نئی ٹیکسٹائل پالیسی کے لیے مثبت تجاویز پیش کیں جسے وزارت تجارت نے نئی ٹیکسٹائل پالیسی 2020-2025 میں شامل کیا تھا۔ قابل ذکر ہے کہ مذکورہ ٹیکسٹائل پالیسی وزیر اعظم کی مکمل رضامندی سے منظور کی گئی تھی جنہوں نے ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کی تمام گزارشات اور سفارشات سے اصولی طور پر اتفاق کیا۔
اس سلسلے میں وقتاً فوقتاً وفاقی وزرائے تجارت و خزانہ نے بھی مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی۔ منظور شدہ تیسری ٹیکسٹائل پالیسی کا نفاذ 2019 سے زیر التوا تھا۔ اب ایسا لگتا ہے کہ ٹیکسٹائل صنعت کی تمام سخت کوششیں بے کار ہو جائیں گی۔ پہلی قومی ٹیکسٹائل پالیسی 2009 میں پانچ سال کی مدت کے لیے منظور کی گئی تھی جس کے بعد دوسری ٹیکسٹائل پالیسی 2014-19 میں منظور کی گئی تھی اور اس کے موثر نفاذ سے ٹیکسٹائل کی برآمدات میں تقریباً 31 فی صد اضافہ کے ساتھ ٹیکسٹائل کی برآمدات کی مالیت میں 13.32 بلین ڈالرز کا اضافہ ہوا ہے۔ ٹیکسٹائل کے برآمد کنندگان نے اس بات پر بھی افسوس اور تشویش کا اظہار کیا کہ جب بھی ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل انڈسٹری اپنی پوری صلاحیت کے ساتھ کام کرتے ہوئے ترقی کی منازل کی طرف گامزن ہوتی ہے تو کوئی نہ کوئی منفی چیز رونما ہوتی ہے اور حکومت کی جانب سے برآمدات مخالف اقدامات کی وجہ سے برآمد کنندگان کی تمام تر کوششوں کی مخالفت کی جاتی ہے اور ٹیکسٹائل ایکسپورٹ انڈسٹری کی بقاء کو داؤ پر لگا دیا جاتا ہے۔ برآمد کنندگان نے وفاقی حکومت کو سنگین نتائج کے بارے میں خبردار کیا اور اپیل کی کہ ٹیکسٹائل پالیسی 2020-2025 اور اس کی مراعات کو واپس نہ لیا جائے بصورت دیگر برآمدی آرڈرز کو نقصان ہو گا اور اندیشہ ہے کہ ٹیکسٹائل آرڈرز کے ساتھ ساتھ کہیں ٹیکسٹائل انڈسٹری بھی خطے کے دیگر مسابقتی ممالک منتقل نہ ہو جائے۔ لہٰذا یہ ذمے داری حکومت پر آتی ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ وہ برآمدات بڑھانا چاہتی ہے یا پھر خود ہی دوسری صورت میں برآمدی صنعتوں کو بند کرنے یا کہیں اور منتقل ہونے کا عندیہ دے دے۔ یہ بھی ایک ستم ظریفی اور المیہ ہے کہ آنے والی حکومتیں پچھلی کئی دہائیوں سے ٹیکسٹائل کی صنعت کے ساتھ سوچی سمجھی مہم جوئی کر رہی ہیں اور اسے حقیقی معنوں میں اہمیت نہیں دیتیں۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری کی وزارت ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل ایکسپورٹ سیکٹر کے دیرینہ مطالبے پر قائم کی گئی تھی جو ہماری ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہے اور لائف لائن ہے۔
ٹیکسٹائل ملک کی کل برآمدات کا 54.63 فی صد حصہ پر محیط ہے اور مجموعی ملازمت و روزگار کی فراہمی بشمول مرو و خواتین میں اس کا حصہ 42فی صد ہے۔ وزارت ٹیکسٹائل انڈسٹری کے قیام کے بعد ابتدائی مرحلے میں ٹیکسٹائل کی صنعت کے ساتھ ساتھ ٹیکسٹائل برآمدات کو بھی فروغ حاصل ہوا۔ اس کے باوجود وزارت ٹیکسٹائل انڈسٹری کو کبھی بھی حقیقی معنوں میں اہم پالیسی فیصلوں کے لیے خود مختاری نہیں دی گئی جس کی وجہ سے مسائل کے حل اور ٹیکسٹائل پالیسی کے عملی نفاذ میں تاخیر ہوئی۔ تاریخ کو دہراتے ہوئے موجودہ حکومت نے وزارت ٹیکسٹائل انڈسٹری کو مکمل طور پر ٹیکسٹائل ڈویژن بنا کر دوبارہ وفاقی وزارت تجارت میں ضم کر دیا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ ماضی میں بھی ٹیکسٹائل کی صنعت کا تجارت کے ساتھ اس طرح کے انضمام کے کبھی بھی مطلوبہ نتائج نہیں آئے۔ لہٰذا ٹیکسٹائل انڈسٹری کی ایک علٰیحدہ اور بااختیار وزارت کی آج بھی اہمیت اور ضرورت برقرار ہے تاکہ ٹیکسٹائل کی برآمدات کو بڑھانے کے لیے حقیقی توجہ دی جائے۔ بھارت، بنگلا دیش، سری لنکا اور دیگر علاقائی مسابقتی ممالک میں الگ الگ ٹیکسٹائل وزارتیں کام کر رہی ہیں جنہوں نے اپنی ٹیکسٹائل صنعتوں اور برآمدات کو بڑھا کر مؤثر طریقے سے ڈیلیور کیا ہے۔ نتیجتاً، ٹیکسٹائل انڈسٹری بھی مطالبہ کرتی ہے کہ ٹیکسٹائل کی الگ صنعت کو دوبارہ متعارف کرایا جائے جس کی وزارت کسی تجربہ کار وزیر کو دی جائے اور قابل سیکرٹری تعینات کیا جائے۔
وفاقی وزارت خزانہ اور وزارت توانائی جن کا حکومت کے لیے ریونیو پیدا کرنے میں کوئی عملی کردار نہیں ہے وہ وزارت تجارت کو حکم دے رہی ہیں۔ تجارت اور صنعت کی ترقی اور کاروبار کا فروغ، زرمبادلہ کمانے اور روزگار پیدا کرنے اور ٹیکس نیٹ کو بڑا کرنے کے چارٹر پر عمل درآمد میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو قوی اندیشہ ہے کہ اس کے ٹیکسٹائل انڈسٹری اور اس کی برآمدات پر منفی اور تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے اور معیشت بھی تنزلی کی طرف مائل ہوگی جس کی تمام تر ذمے داری حکومت پر عائد ہو گی۔ ٹیکسٹائل پالیسی کی واپسی صنعت کو تباکر دے گی۔