دھرنے کی کامیابیاں

499

جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن پچھلے کئی برسوں سے حق دو کراچی کو، کے عنوان سے مہم چلا رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ عوامی مسائل کے حل کے سلسلے میں بھی فعال رہے ہیں۔ ادارہ نور حق کا دفتر جماعت اسلامی کراچی کے مرکزی تنظیمی دفتر کے ساتھ عوامی بیٹھک بھی ہے جہاں کراچی کے مختلف اداروں کے ستائے ہوئے لوگ اپنی داد رسی کے لیے پبلک ایڈ کمیٹی کے ذمے داران سے رجوع کرتے ہیں۔ اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے اخبارات میں ساری خبریں آتی رہتی ہیں، کے الیکٹرک کے مسئلے کو جس طرح جماعت نے اٹھایا ہے وہ اہل کراچی کے دل کی آواز ہے کے الیکٹرک کے مالکان کے بارے میں یہ خبریں ہی اکثر آتی رہتی ہیں کہ جماعت اسلامی کے سوا ہر سیاسی جماعت کو فنڈنگ کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم ہو پی ٹی آئی ہو ن لیگ ہو یا پی پی پی کوئی بھی کے الیکٹرک کے خلاف پوری قوت سے نہیں بولتا بس ہلکے پھلکے انداز میں نمائشی بیانات دے دیتے ہیں۔
پی پی پی کو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ کراچی سے بلدیاتی انتخاب نہیں جیت سکتی اس لیے اس نے صوبے میں اپنی حکمرانی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کراچی کے بلدیاتی اختیارات پر ڈاکا ڈالا ہے اور سندھ اسمبلی سے ایسی ترمیمات منظور کرائیں ہیں جس میں اپر ہینڈ حکومت سندھ کا ہو، افسوس کی بات یہ ہے کہ صوبہ سندھ کی تحریک انصاف نے اس مسئلے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی کی کراچی سے 14قومی اسمبلی کے ارکان ہیں اور 22صوبائی اسمبلی کے ارکان ہیں کراچی سے اتنا بھاری مینڈٹ لینے کے باوجود تحریک انصاف نے بل پاس ہوتے وقت اسمبلی میں تو شور و غل مچایا اور پھر خاموشی کی چادر اوڑھ لی حالانکہ یہ پی ٹی آئی کی ذمے داری تھی کہ وہ پی پی پی کی اس ڈکیتی کے خلاف بھر پور مہم چلاتی عوامی احتجاج کا کوئی سلسلہ شروع کرکے صوبائی حکومت کو مجبور کرتی کہ وہ ان ترامیم کو واپس لے اور کراچی کی بلدیہ کو بااختیار بلدیہ بنائے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کسی انجانے خوف کا شکار ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ سندھ میں اس مہم کے جواب میں قومی اسمبلی میں پی پی پی تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے فعال ہو جائے اور ن لیگ اور جے یو آئی کو ساتھ ملا کر عمران خان کے اقتدار کو چیلنج کردے، اس لیے کراچی کے اس اہم ایشو پر پی ٹی آئی خاموش ہے۔
جماعت اسلامی نے پچھلے دو ہفتوں سے دھرنا دیا ہوا ہے۔ یہ دھرنا دو حیثیتوں سے کامیاب جارہا ہے ایک تو حاضری کے لحاظ سے اور دوسرے اپنے اثرات کے لحاظ سے۔ جس طرح کی سردی پڑرہی ہے اس میں جماعت کے کارکنان ہی کا یہ حوصلہ ہے کہ وہ دھرنے میں استقامت کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ جماعت کے کارکنان زیادہ تر غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کے اپنے گھریلو مسائل بھی ہوتے ہوں گے ذریعہ معاش کے مسائل بھی ہوں گے لیکن اس کے باوجود ایک اوسطاً حاضری تو ہر وقت ہی ہوتی ہے لیکن رات کے وقت یہ حاضری بڑھ جاتی ہے کہ کارکنان اپنے دفاتر سے واپسی پر اس دھرنے میں شریک ہوجاتے ہیں۔ کل جب پی پی پی کے وفد نے دھرنے میں آکر حافظ نعیم سے درخواست کی آپ دھرنا ختم کردیں اور مزاکرات کے ذریعے مسائل کو حل کرتے ہیں حافظ نعیم نے جب شرکائے دھرنا سے پوچھا کے کیا دھرنا ختم کردیا جائے تو تمام شرکائے دھرنا نے بڑے پر جوش انداز میں ہاتھ ہلا ہلا کر انکار کیا کہ ہم دھرنا ختم نہیں کریں گے جب تک کہ ہمارے تمام مطالبات پورے نہیں ہو جاتے اس پر حافظ نعیم نے کہا دھرنا ختم نہیں ہو گا بلکہ دھرنا اور مذاکرات ساتھ ساتھ چلیں گے۔
دھرنے کی کامیابی اس حوالے سے بھی ہے کہ سندھ حکومت اس مسئلے پر بیک فٹ پر چلی گئی ہے اب وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ ترامیم آسمانی صحیفہ نہیں ہیں کہ اس کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا دوسری طرف کروڑوں روپیہ خرچ کرکے الیکٹرانک میڈیا میں اشتہارات دیے جارہے ہیں جس میں اپنی جھوٹی سچی کارکردگی کو نمایاں کیا جارہا ہے اس سے پی پی پی دو فائدے اٹھا رہی ہے ایک تو یہ کہ اپنی کارکردگی کو بیان کررہی ہے اور دوسرے یہ کہ وہ الیکٹرونک میڈیا پر یہ دبائو بھی ڈال رہی ہے کہ دھرنے کی بہت زیادہ کوریج نہ کی جائے حکومت سندھ کی یہ پریشانی ظاہر کرتی ہے کہ وہ جواب دہ پوزیشن میں آگئی ہے۔ امید ہے کہ جماعت اسلامی کے ساتھ بلدیاتی اختیارات کے حوالے سے مذاکرات کامیاب ہو جائیں گے اسی میں کراچی کے شہریوں کی بھلائی ہے۔