برف کا تابوت

531

ملکہ کوہسار مری اس وقت اپنے عشاق کے لیے زندگی بخش اورفرحت انگیز لمحات کے بجائے برف کا تابوت بن گئی جب علاقے کو شدید برفانی طوفان نے آن گھیرا اور ملک بھر سے بالخصوص اور قرب وجوار سے بالعموم آنے والے لاکھوں سیاحوں کی کم و بیش ہزار رہا گاڑیاں اس طوفان کی زد میں ا ٓکر رہ گئیں۔ ٹریفک جام ہو گیا اور جنم جنم کی بے بس انتظامیہ اور ریاست ہمیشہ کی طرح اس آفت ناگہانی میں بے بسی کی تصویر بن کر رہ گئی۔ اب تک 23 افراد گاڑیوں میں کاربن مونو آکسائیڈ گیس بننے کے باعث اپنی جان سے گزر گئے ہیں اور معصوم بچوں کی تصویروں نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ان تصویروں پر بے ساختہ یہ مصرعہ صادق آتا ہے ’’یہ بچے ہیں انہیں تو جلد سو جانے کی عادت ہے‘‘۔ اب حکومت نے اس واقعے کی تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے مگر تحقیقات سے نہ تو برف کے تابوت میں اُترنے والے زندہ ہو سکتے ہیں اور نہ ہی اس واقعے میں غفلت اور نااہلی کے مرتکب افراد کو سز امل سکتی ہے۔ اس سے بھی اہم اور قطعی بات یہ کہ اس واقعے سے بھی ہم نے مجموعی طور پر کوئی سبق سیکھنا ہی نہیں۔ جوں جوں برف گرنے کے لمحات قریب آتے گئے ملک بھر سے سیاحت کے شوقین لوگوں کے دل مچلتے چلے گئے اور ان کا رُخ مری کی جانب ہو گیا۔ قطار اندر قطار گاڑیاں مری کی ایک محدود سی وادی کی جانب چل پڑیں اور اسلام آباد کے نواحی علاقے بہارہ کہو سے ہی ٹریفک جام کا آغاز ہونے کے آثار کئی روز پہلے ہی پیدا ہونے لگے تھے۔ چار جنوری کو مجھے ایک دن میں دوبار مری کے راستوں سے گزرنا پڑا۔ صبح کے وقت برف باری کا آغاز ہورہا تھا اور شام تک برف کی اچھی خاصی تہہ جم چکی تھی اور بدترین ٹریفک جام کا آغاز ہو چکا تھا ۔ ہزاروں گاڑیاں واپس اسلام آباد کی طرف رواں دواں تھیں مگر ہزاروں ہی گاڑیاں برف میں جابجا بے ترتیب انداز سے پارک کی ہوئی تھیں جن کے سوا رانہیں وہیں چھوڑ کر پیدل یا کسی دوسرے ذریعے سے مال روڈ کی طرف روانہ ہو چکے تھے۔ اس سے چند دن پہلے سال نو کی شام بھی انہی راستوں سے گزر ہوا۔ اس وقت برف تو نہیں تھی مگر ٹریفک جام کی کیفیت یہی تھی۔ ٹریفک پولیس کا وجود اس روز بھی عنقا تھا اور لوگوں کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ گویا کہ پہلی اور معمولی سی برف سے مری کی سڑکوں پر گھنٹوں ٹریفک جام کا آغاز ہوگیا تھا اور لوگ جہاں تھے جیسے تھے کے اصول پر عمل کر کے اپنی گاڑیاں بڑی شاہراہ پر کھڑی کر کے مری کے دل مال روڈ اور کشمیر پوائنٹ کی طرف روانہ
ہوتے جا رہے تھے۔ برف دیکھنے سے زیادہ مال روڈ تک پہنچنے کی دھن ہر سیاح کے سر پر سوار نظر آتی تھی۔ ہزاروں گاڑیاں مری میں داخل ہو رہی تھیں تو ہزاروں ہی مری چھوڑ کر اسلام آباد کی طرف واپسی کی راہ لے رہی تھیں۔ جب تک ٹریفک کی نکاسی کا یہ عمل جاری رہا کوئی حادثہ نہیں ہوا مگر جب دو روز بعدبرفانی طوفان کے باعث ٹریفک جام ہونے لگا تو دیوار پر ایک خونیں سی تصویر کے خدوخال اُبھرنے لگے۔ سیاحتی مقامات کے کاروباری طبقے کے لیے موسموں کی شدت ایک کاروباری امکان اور موقع بن جاتی ہے۔ مری میں ہوٹل اور دوسرے شعبوں سے وابستہ افراد صرف مقامی نہیں بلکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں کے سرمایہ کار بھی یہاں معقول تعداد میں موجود ہیں۔ جن کے تعلقات اور اثرات ملک کے فیصلہ سازی کے مراکز تک ہونا فطری ہے۔ صاف نظر آرہا تھا کہ گاڑیوں کا ریلا ایک ایسے مقام کا رُخ کرچکا ہے جہاں ایک محدود تعداد میں ہی پارکنگ اور رہائش کی گنجائش ہے۔ موسم کی شدت اور گنجائش کی کمی یہ دو پہلو ایسے تھے جہاں سے حکومت اور انتظامیہ کے حسن انتظام کا امتحان شروع ہوتا تھا۔ اوّل تو یہ جانچنا ضروری تھا کہ گاڑیوں کا یہ سیلاب کہاں جا رہا ہے۔ اس کی منزل کوہالہ مظفرآباد کے راستے کاغان ہے یا فقط مری؟ ظاہر ہے کہ ان میں 99 فی صد کی منزل مری تھی۔ راولپنڈی اسلام آباد سے اکثر لوگ اب صبح گاڑیوں میں مری کا رُخ کرتے ہیں اور دن گزار کر واپسی کی راہ لیتے ہیں۔ ہر ویک اینڈ کے اختتام پر مری سے ہزاروں گاڑیوں کے قافلے اسلام آباد کی طرف جاتے ہیں۔ یہ اندازہ ہونے کے بعد گاڑیوں کی منزل مری ہے حکومت کو فوری طور پر مزید گاڑیوں کا رُخ موڑ دینا چاہیے تھا اور روایتی طور پر مردہ، کاہل اور کام چور سول انتظامیہ پر تکیہ کرنے کے بجائے فوج سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔ مری کے اندر جی او سی جیسا بااختیار افسر موجود ہے جو آپریشن کے انداز میں الرٹ جا ری کر سکتا تھا مگر فوج سے مدد طلب کرنا سول انتظامیہ کا کام ہوتا ہے۔ مری میں کئی دن سے ٹریفک جام کی جو صورت حال پیدا ہوتی نظر آتی تھی، اس میں ٹریفک پولیس کی روایتی نااہلی جابجا دکھائی دے رہی تھی اور یہ مشکل کام کسی تردد کے بغیر فوج کے حوالے کیا جانا چاہیے تھا۔ یہ سب کچھ غفلت،کاہلی، عدم بصیرت اور نااہلی میں شمار ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح کے واقعات ناگہانی آفات ہی کہلاتے ہیں مگر ناگہانی آفات سے نمٹنے کی ہماری صلاحیت ہر دور میں سوالیہ نشان رہی۔ آفات میں ہماری تابوت اور کفن فروش ذہنیت عود کر آتی ہے۔ کاروباری لوگ حادثوں میں مواقع کی تلاش میں سرگرداں ہوجاتے ہیں۔