زندگی ،ڈراما اور اداکاری

452

عسکری صاحب نے کہیں انسانوں کو دیا گیا آندرے ژید کا یہ مشورہ نقل کیا ہے کہ اپنا ملک چھوڑ دو، اپنے خیالات چھوڑ دو، اور کچھ نہیں تو کم از کم اپنا کمرہ ہی چھوڑ دو۔ آندرے ژید کے اس مشورے کی پشت پر مغرب کی قرونِ وسطیٰ کی اُس تہذیب کے خلاف پیدا ہونے والا ردعمل موجود ہے جس میں مذہبی عقائد سے وابستگی ہی سب کچھ تھی۔

وہ مذہبی عقائد جنہیں جدید مغرب Dogma یا منجمد جذبہ قرار دے چکا تھا۔ بہرحال مغربی دنیا نے آندرے ژید کے اس مشورے پر لفظی اور معنوی دونوں اعتبار سے اتنا زیادہ عمل کیا کہ بات عقائد و خیالات سے ہوتی ہوئی ماں باپ اور بیوی بچوں کو چھوڑنے تک آپہنچی ہے، بلکہ مغرب میں پھیلے ہوئے خودکشی کے رجحان کو دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ نوبت اپنی زندگی کو چھوڑنے تک آپہنچی ہے۔ ایک بے لگام ذہنی آزادی کی انسان کو اتنی بڑی قیمت ادا کرنا پڑے گی شاید آندرے ژید نے اس کا تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔

مغرب کے ذہنی آزادی کے تصورات نے جو دنیا پیدا کی ہے… تضاد، تصادم اور آویزش اس کا ’’طرۂ امتیاز‘‘ ہیں۔ ان کے بغیر یہ دنیا قائم نہیں رہ سکتی۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ موجودہ عہد میں ڈرامے، فلم اور اداکاری کے ’’فن‘‘ کو بے پناہ ’’ترقی‘‘ حاصل ہوئی ہے۔ ان عناصر کی ترقی کا ’’راز‘‘ یہ ہے کہ یہ تمام چیزیں عصرِ حاضر کے مزاج، روح اور تقاضوں سے پوری طرح ہم آہنگ ہیں۔

ولیم شیکسپیئر نے دنیا کو ایک اسٹیج سے تشبیہ دی تھی، اور کہا تھا کہ انسانوں کی حیثیت اُن اداکاروں سے زیادہ نہیں جو اس اسٹیج پر آکر اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ شیکسپیئر جدید اور قدیم کے سنگم پر کھڑا ہوا ایک انسان ہے، اور ایک اعتبار سے اس کی حیثیت وہی ہے جو اردو ادب میں غالب کی ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ شیکسپیئر نے یہ بات ایک تشبیہ کے طور پر کہی تھی۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس کا یہ تبصرہ تقدیر و تدبیر کے باہمی تعلق اور اس سے ظہور پذیر ہونے والے مظاہرِ حیات کی نشاندہی کی حیثیت رکھتا ہے، اور اس میں موجود آفاقیت کو صاف طورپر دیکھا جاسکتا ہے۔ لیکن ہماری دنیا شیکسپیئر کا اسٹیج بھی نہیں ہے۔

ہماری دنیا ہالی ووڈ کی فلم کا پردہ اور عام تھیٹر کا اسٹیج بن چکی ہے اور انسانوں کی بہت بڑی تعداد کی حیثیت عام اداکاروں کی سی ہوگئی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہماری زندگی میں ڈرامائی عنصر اور اداکاری کے مزاج کی کارفرمائی بہت بڑھ گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟

اس کی ایک وجہ تو یہ ہے جو ہم ابھی بیان کرچکے ہیں یعنی تضاد، تصادم اور آویزش سے بھرپور ماحول۔ تاہم دوسری وجہ یہ ہے کہ اس ماحول سے جو تقاضے ابھرتے ہیں وہ انسان کو مسلسل یہ احساس دلاتے رہتے ہیں کہ وہ جو کچھ اور جیسا کچھ ہے، ٹھیک اور کافی نہیں۔ ٹھیک اور کافی ہونے کے لیے اسے اور کچھ ہونا چاہیے۔ کیا ہونا چاہیے؟ اس کا کوئی واضح تصور انسانوں کے ذہن میں موجود نہیں، اور یہ ایک فطری بات ہے۔

ہر آن بدلتے اور بگڑتے ہوئے ماحول میں اس قسم کے تصور کا کوئی واضح تعین ہو ہی نہیں سکتا۔ انسان چونکہ جو کچھ اور جیسا کچھ ہے اس سے مطمئن نہیں ہوتا، اور وہ کچھ اور بننا چاہتا ہے، اس لیے اسے محسوس ہوتا ہے کہ زبان و بیان اور اظہار کے طریقے بھی ’’کچھ اور‘‘ ہونے چاہئیں۔

ابھی چند روز پیشتر میری بڑی بیٹی نے جس کی عمر صرف چھ سال ہے، مجھے نہایت جوش و خروش کے ساتھ بتایا کہ اس نے آج کمال کردیا۔ اس نے بتایا کہ آج اس کی خالہ دوسرے بچوں کے ساتھ باتوں میں مصروف تھیں اور اس پر توجہ نہیں دے رہی تھیں تو اس نے پانی کے قطرے اپنی آنکھوں کے نیچے گرا لیے اور یہ تاثر دیا کہ گویا وہ رو رہی ہے، اس حرکت کے ذریعے وہ اپنی خالہ کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔

ظاہر ہے کہ یہ محض ٹیلی ویژن کا اثر نہیں ہے، یہ محض ذہانت بھی نہیں ہے، یہ ڈرامے اور اداکاری کے اس رجحان کا شاخسانہ ہے جو عہدِ حاضر کا مجموعی مزاج اور رُوح بن کر ہمارے سامنے آرہا ہے اور جس سے صرف بچے ہی نہیں جوان اور بوڑھے بھی متاثر ہورہے ہیں۔