چھٹیاں پہلے سردیاں بعد میں۔ کچھ سوچیں

814

اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ایسے ایسے حکمران ملے اور ایسی اشرافیہ ملی ہے کہ اس نے اس ملک کو اسلامی بننے دیا نہ جمہوری رہنے دیا۔ اب آخری حصہ پاکستان بچا ہے وہ اسے بھی تباہ و برباد کرنے میں مصروف ہیں۔ اصل سبب ذہنی غلام حکمران ہیں، عام طور پر حکمران کا مطلب صدر، وزیراعظم، گورنر، وزیراعلیٰ اور وزرا لیا جاتا ہے لیکن درحقیقت سول و فوجی بیورو کریسی اور عدلیہ بھی حکومت میں شمار ہوتی ہے۔ اب سب کا قبلہ مغرب ہے۔ اگرچہ ان میں سے اکثریت اس کا برملا اعتراف نہیں کرتی لیکن ان کے اقدامات اور تبصرے بہت واضح طور پر اشارہ دیتے ہیں کہ ان کا مرکز و محور اسلام نہیں۔ ایک چیز ہر سال دسمبر، جنوری میں سب کو نظر آتی ہے لیکن میڈیا کے ذریعے عوام کے ذہنوں کو اس قدر مسموم اور کنٹرول کیا جاچکا ہے کہ انہیں بھی احساس نہیں ہوتا کہ ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ ہر سال پورے پاکستان میں تعلیمی اداروں میں سرما کی تعطیلات دسمبر کے آخری عشرے میں کس وقت دی جاتی ہے۔ کبھی 23 سے کبھی 24 سے کبھی کیلنڈر دیکھ کر 26 سے کیونکہ 24 اور 25 کو ہفتہ اتوار ہوتے ہیں۔ یہ تعطیلات دو تین چار جنوری تک چلتی ہیں اور ہر سال تعطیلات ختم ہوتے ہی سردی کی لہر آتی ہے، بارش ہوتی ہے، شدید سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے بچے صبح صبح اسکول کے لیے منہ اندھیرے تیار ہو کر سوتے جاگتے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ منہ اندھیرے اس لیے کہ جنوری میں سورج سوا سات بجے کے بعد طلوع ہورہا ہے اور اس وقت بچوں کو گھر یا فلیٹ کے گیٹ پر کھڑا ہونا لازمی ہے ورنہ اسکول وین انہیں چھوڑ جائے گی۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ پھر جب چھٹیوں کے بعد سردی بڑھتی ہے تو اخبارات، ٹی وی چینلز وغیرہ خبریں چلاتے ہیں، ہلکا پھلکا طنز ہوتا ہے کہ سردیوں کی تعطیلات ختم ہونے کے بعد سردی میں اضافہ، بچے سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے اسکول گئے اور پھر سردی ختم بات بھولی بسری ہوگئی۔
کیا یہ مسئلہ ایسا ہی ہے؟ ہماری نظر میں ایسا نہیں ہے۔ 1960ء کے عشرے میں پاکستانی حکمرانوں میں ایسے عناصر داخل ہوچکے تھے جو اس ملک میں ایسا کوئی کام ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے تھے جس سے ملک کا اسلامی تشخص نمایاں ہو اور کسی نہ کسی طرح عوام کے ذہنوں میں مغرب کا چہرہ نمایاں رہے۔ 60 کے عشرے میں کرسمس کی خبروں پر بڑا زور دیا جاتا تھا۔ پھر کرسمس کی چھٹیاں دسمبر کے آخری عشرے میں دی جانے لگیں۔ یہ جو چھٹیاں آج کل سردیوں کی چھٹی کے نام پر دی جاتی ہیں۔ یہ سردیوں کی نہیں کرسمس اور نئے سال کی چھٹیوں سے اشرافیہ، حکمران طبقے اور بڑے لوگوں کو ہم آہنگ کردیا جاتا ہے۔ ان میں سے جسے یورپ کا رُخ کرنا ہو وہ پہلے سے تیاری رکھتا ہے اس کو یقین ہے کہ سردی ہو یا نہیں موسم سرما کی تعطیلات ان ہی دنوں میں ہوں گی۔ اپنے ملک میں سال نو منانا ہو، راگ رنگ کی محفل سجانی ہو، تمام کاموں کے لیے مکمل فراغت ہوتی ہے۔ گائوں سے شہر میں تعیناتی کے لیے آنے والے اپنے گائوں چلے جاتے ہیں، وہاں یہ چھٹیاں گزارتے ہیں، لیکن حقیقت تو یہی نظر آتی ہے کہ یہ چھٹیاں سردیوں کی نہیں ہوتیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ والدین کی تنظیمیں، اساتذہ کی تنظیمیں اور دیگر سماجی تنظیمیں اس مسئلے پر غور بھی کرتی ہیں یا نہیں ان کی کوئی آواز نہیں سنائی دیتی۔ اس کا سبب بھی یہی اشرافیہ ہے، اس نے عوام کی ترجمانی کرنے کا نظام سیاسی جماعتوں سے چھین کر چھوٹے چھوٹے گروہوں ان کی کارروائیوں اور متعصبانہ فکر کی حامل تنظیموں کے ہاتھ میں دے دیا ہے۔ اب یہ تنظیمیں الگ الگ مطالبات کرتی ہیں، کسی کا ایک مطالبہ مانا جاتا ہے کسی کے سارے اور کسی کو لاٹھی چارج سے نوازا جاتا ہے۔ اساتذہ تنخواہ، پنشن اور مراعات کی باتیں کرتے ہیں، والدین کی تنظیمیں ہیں لیکن وہ بھی معاشی چکر میں گھیر لیے گئے ہیں، وہ بھی تنخواہوں اور مسائل کے لیے احتجاج کرتے ہیں، اگر کوئی سیاسی جماعت آگے بڑھے تو کسی ایسی ہی اکائی کو آگے کردیا جاتا ہے، وہ آگے بڑھتی ہے سارا میڈیا اس کو دکھاتا اور اس پر تبصرے کرتا ہے اور اصل لوگ پھر پیچھے ہوجاتے ہیں۔ ہماری گزارش ہے اساتذہ، طلبہ کے والدین اور ایسی تنظیموں سے جن کا کام ہی بے ضابطگیوں کا نوٹس لینا ہے وہ اس مسئلے پر غور کریں آواز اٹھائیں۔ صرف گھروں میں چڑچڑانے اور کڑھتے سے کوئی فائدہ نہیں، سردی تو ہر سال آتی ہے، بچے اگلی کلاس میں چلے جاتے ہیں لیکن یہ اشرافیہ یہ حکمران اپنے کاموں میں مصروف رہتے ہیں، کوئی تو ان سے سوال کرے کہ ہمارے ساتھ یہ کیا ہورہا ہے۔
ایک اور کھیل شراب کے لائسنس کا ہے۔ غیر ملکیوں کے لیے شراب کے پرمٹ اور لائسنس جاری ہوتے ہیں۔ یہ غیر مسلموں کے حقوق دیے جارہے ہیں، انہیں شراب کا پرمٹ دے کر… لیکن اس پر تو ایک غیر مسلم نے خود اسمبلی میں قرارداد پیش کی پی ٹی آئی کے رکن رمیش کمار نے پیش کی تھی۔ انہوں نے غیر مسلموں کے نام پر شراب کی فروخت کو غیر آئینی قرار دیا تھا لیکن اسے قائمہ کمیٹی نے مسترد کردیا۔ 2013ء میں مسلم لیگ (ن) نے پرائیویٹ رکن حمید کی قرار داد اس بنیاد پر مسترد کردی کہ یہ پرمٹ صوبائی معاملہ ہے ہم اس میں مداخلت نہیں کرسکتے۔ رمیش کمار تو ریاست مدینہ کی دعویدار پی ٹی آئی کے رکن ہیں انہوں نے بہت واضح الفاظ میں کہا تھا کہ اسلام کے ساتھ عیسائی، ہندو، سکھ برادری کے مذاہب میں بھی شراب کے استعمال، تیاری اور فروخت کی ممانعت ہے۔ اس کے تمام لائسنس منسوخ کردیے جائیں۔ لیکن تمام کلمہ گو مسلمان ارکان اسمبلی کی اکثریت نے اس تجویز کو مسترد کردیا۔ اقلیتی رکن اعلان کررہا ہے کہ اقلیتوں کے نام پر شراب کی فروخت کے لائسنس والوں کی اکثریت اقلیت نہیں، مسلمان ہے۔ پھر یہ بات سمجھنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے کہ وہی اشرافیہ اور وہی حکمران اس میں بھی رکاوٹ ہیں۔ جب گناہ اجتماعی طور پر ہونے لگیں تو سزا بھی عذاب کی صورت میں ملتی ہے۔ ایک صورت عذاب کی نااہل اور نالائق حکمران بھی ہوتے ہیں۔ یہ ایسے کام کرتے ہیں کہ قوم تکلیف میں رہے۔ یہ قوم کی ذمے داری ہے کہ اپنے ارکان اسمبلی سے پوچھے کہ شراب کے اتنے دیوانے کیوں ہو۔ اس کا خاتمہ کیوں نہیں چاہتے۔ لیکن بات وہی ہے کہ مغرب کے پیروکار حکمران ہیں ہر کام اس کی پیروی میں کرتے ہیں۔