!محبّت کی زباں ہوجا

288

عزّتِ و آبرو: انسان کے نزدیک عزت و آبرو ہر چیز سے بڑھ کر قیمتی ہوتی ہے۔ جہاں یہ منع کیا گیا ہے کہ ایک بھائی کی عزت و آبرو سے نہ کھیلا جائے وہیں اس بات کی بھی تاکید کر دی گئی ہے کہ اگر ایک مسلمان کو برا بھلا کہا جا رہا ہو تو وہ اس کی عزت کا تحفظ کرے اور اس طرح تحفظ کرے جیسے اپنی عزّت کا کرتا ہے۔ سیدنا ابودرداءؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ’’جو مسلمان کسی مسلمان بھائی کی بے عزّتی یعنی اس کی غیبت کرنے سے روکے اور اس کا دفاع کرے تو اللہ پر اس کا حق ہے کہ وہ اسے قیامت کے دن دوزخ کی آگ سے بچائے یا اس سے دوزخ کی آگ کو دْور کردے۔ پھر نبیؐ نے یہ آیت پڑھی: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومنین کی مدد کرنا ہم پر واجب ہے‘‘۔ (الروم: 47) (مشکوٰۃ)
رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’جس نے کسی مومن کی دنیاوی مشکلات میں سے کوئی مشکل دْور کر دی، اللہ عزوجل قیامت کے دن اس کی مشکلات میں سے ایک مشکل دور کر دے گا۔ جس نے کسی تنگ دست آدمی کو سہولت بخشی، اللہ اس کو دنیا و آخرت میں سہولت بخشے گا۔ اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی تو اللہ عزوجل دنیا و آخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا‘‘۔ (مسلم)
دْکھ درد میں شرکت: اپنے بھائی کی مدد، حاجت روائی اور حسن سلوک کی اصل بنیاد یہ ہے کہ ایک کا دکھ درد دوسرا بھی اسی طرح محسوس کرے۔ ایک شخص جو تکلیف محسوس کرے، اس کا مسلمان بھائی بھی اسی طرح اس تکلیف کو محسوس کرے۔ ورنہ کیفیت تو یہ ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: جس کے راوی محمد بن عبداللہؓ بن نمیر ہیں۔ رسول اللہؐ فرماتے ہیں کہ مومن بندوں کی مثال ان کی آپس میں محبت اور اتحاد اور شفقت میں جسم کی طرح ہے کہ جب جسم کے اعضاء میں سے کسی عضو کو کوئی تکلیف ہوتی ہے تو اس کے سارے جسم کو نیند نہیں آتی اور بخار چڑھ جانے میں اس کا سارا جسم شریک ہو جاتا ہے‘‘۔ (مسلم)
احتساب و نصیحت: ایک مسلمان کا فرض ہے کہ جہاں کہیں بھائی کے معاملات میں بگاڑ دیکھے، اسے نصیحت کے ذریعے صحیح کرنے کی کوشش کرے۔ اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے۔ دنیا کا احتساب، آخرت کے احتساب سے بہتر ہے۔ چنانچہ اصلاح کرنے والے کا ممنون ہونا چاہیے کہ اس نے آخرت کی پکڑ سے بچالیا۔ احتساب و نصیحت دل سوزی، اخلاص اور محبت سے ہو تو یہ اْلفت و لگاؤ کو بڑھاتے ہیں اور باہم تعلقات میں استحکام پیدا کرتے ہیں۔
نبی کریمؐ نے فرمایا: ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا آئینہ ہے اور ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، جو اس سے اس چیز برائی اور عیب کو دْور کرتا ہے جس میں اس کے لیے نقصان اور ہلاکت ہے اور اس کی عدم موجودگی میں بھی اس کے حقوق و مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ (ترمذی)
ملاقات: آج ہم ایک ایسے مصنوعی دَور سے گزر رہے ہیں جس میں قریب والے بھی دْور ہوگئے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی ہزاروں میل دْور ہوتے ہیں۔ یہ دَور ہے ٹیکنالوجی کا، یہ دور ہے سوشل میڈیا کا۔ جس کی وجہ سے گھر میں بیٹھے ہوئے بھی ہم واٹس اَیپ، فیس بک، ٹیوٹر اور نہ جانے کن کن سائٹس پر اپنا وقت صرف کررہے ہوتے ہیں یا اکثر اوقات برباد کررہے ہوتے ہیں اور برابر بیٹھے بھائی بہن، ماں باپ، بیوی بچوں سے ہمارا کوئی رابطہ نہیں ہوتا۔ جب گھر میں ہماری یہ کیفیت ہو تو باہر کے لوگوں سے ملنا ایک سوالیہ نشان نظر آتا ہے۔
ایسے میں بالمشافہ ملاقات محبت بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ محبت کا اوّلین تقاضا ہے کہ جو جس سے محبت کرتا ہے اس سے زیادہ سے زیادہ ملے، اس کے پاس بیٹھے۔یہ دلوں کو قریب لانے کے لیے مؤثر ترین چیز ہے۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی ملاقاتیں ہی تھیں جنھوں نے سیدنا عثمان ابن عفان، عبدالرحمٰن بن عوف، سعد بن ابی وقاص، زبیر بن عوام اور ان جیسے بہت سے صحابہ کرامؓ کو دائرۂ اسلام میں داخل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
نبی کریمؐ فرماتے ہیں کہ ’’کیا تمھیں معلوم ہے کہ جب کوئی مسلمان اپنے بھائی کو دیکھنے اور ملاقات کی غرض سے گھر سے نکلتا ہے تو اس کے پیچھے 70 ہزار فرشتے ہوتے ہیں جو اس کے لیے دعا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! یہ صرف تیرے لیے جڑا ہے تْو اسے جوڑ دے۔ اگر تم سے ممکن ہو تو اپنے جسم سے یہ (ملاقات کا) کام ضرور لو‘‘۔ (مشکوٰۃ)