کراچی میں کاروباری حلقوں کو در پیش سنگین مسائل کا جائزہ

272

حقوق کراچی تحریک اور ’’ری بلڈ کراچی ‘ کے سلسلے میں جماعت اسلامی نے قدم آگے بڑھاتے ہوئے صنعتی و تجارتی مسائل کو ترجیح میں رکھا ۔ اس ضمن میں کراچی کے مختلف صنعتی زون ، کاروبار سے منسلک تاجر برادری کو درپیش حقیقی مسائل ، ان کے حل پر ممکنہ تجاویزو سفارشات پیش کرنے کے لیے ایک پینل ڈسکشن میں جمع کیا گیا۔
ڈسکشن کی صدارت امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے کی ۔اس ڈسکشن سے خواجہ طارق (جنرل سیکرٹری کراچی میرج ہال لان اینڈ بینکوئٹ)،وقاص عظیم (کنونیئر ایف پی سی سی آئی)، محمد فیضان راوت (جنرل سیکرٹری آل کراچی ریسٹورنٹ ایسوسی ایشن)، سلمان جاوید (سابق جنرل منیجرپی آئی اے)، ، شکیل بیگ (کنزیومر رائٹس پروٹیکشن کونسل)، عتیق میر (آل کراچی تاجر اتحاد)،، محمد حنیف لاکھانی (وائس پریذیڈنٹ ایف پی سی سی آئی)، شارق وہرہ(صدر کے سی سی آئی) ، سہیل عزیز،کامل ملتانی(صدر پاکستان بزنس فورم)، نوید علی بیگ، پروفیسر ڈاکٹر واسع شاکر، حنیف میمن(سینئر وائس چیئر مین آباد)، حاجی انور ناگوری، آصف مصباح، ظفر الاسلام صدیقی، ملک حنیف، شہاب زبیری، شوکت مختار، ایچ عثمان ناگوری اور دیگر نے اظہار خیال کیا.پروگرام کی نظامت کے فرائض مقامی چینل کے سینئر بزنس اینکر عمران غوری نے انجام دیے ۔امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے کراچی کا مقدمہ پیش کرتے ہوے کہا کہ کراچی کے تمام طبقات اور شعبے کے لوگ سخت پریشان ہیں ۔کراچی پاکستان کی معیشت چلاتا ہے لیکن افسوس کہ اس کو کچھ نہیں دیا جاتا،ان حق تلفی کرنے والوں میں تمام حکومتیں اور حکمران پارٹیاں اور مقتدر حلقے شامل ہیں ۔کراچی کی انڈسٹری کو ان کی ضروریات پانی ،گیس تک نہیں دی جاتی ہے ۔سندھ حکومت وڈیرہ شاہی سوچ کے ذریعے کراچی کو تباہ کررہی ہے ۔مردم شماری ،کوٹہ سسٹم تو براہ راست وفاق کا معاملہ ہے ۔ہم تمام طبقات کو ساتھ ملا کر کراچی کی تعمیر نو کا عزم رکھتے ہیں اس لیے اب تاجر برادری کے مسائل کو عملی بنیادوں پر حل کرنے کے لیے تجاویز تیار کی جائیں گی.
وائس پریذیڈنٹ ایف پی سی سی آئی حنیف لاکھانی نےکہا کہ حکمرانوں نےکراچی کو دودھ دینے والی گائے سمجھ کر کرپشن اور لو ٹ مار کا کام کیاجس کا سب سے زیادہ نقصان انڈسٹری کو ہوا۔ اب یہاں بڑی انڈسٹری نہیں لگائی جاسکتی لوگ بیرون شہر جا رہے ہیں ۔جنرل سیکرٹری کراچی میرج ہال لان اینڈ بینکوئٹ وقاض عظیم نے کہاکہ ریسٹورنٹ انڈسٹری میں 2.5ملین لوگوں کا روزگار وابستہ ہے جسے ابھی تک صنعت تصور نہیں کیا گیا، کورونا اور لاک ڈاؤن میں اختیارات کا ناجائز فائد ہ اٹھاکر ریسٹورنٹ انڈسٹری کوشدیدنقصان پہنچا یا گیا ۔ شارق وہرہ نے کہاکہ کراچی کے شہریوں کو ٹرانسپورٹ تک میسر نہیں ہے ،تعلیم پربھی کوئی کام نہیں ہورہا ۔ آل کراچی تاجر اتحاد کےصدر عتیق میر نے کہاکہ کراچی کو دانستہ طور پر تباہ کیا گیا ہے ،کراچی (باقی صفحہ نمبر05 بقیہ نمبر01)

غریب پرور شہر ہے ، تین کروڑ سے زائد شہر پھر سے روشن اور چمکتا دمکتاشہر بنانا ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔کراچی کے لیے 500فائراسٹیشنز کی ضرورت ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ تین کروڑ سے زائد شہریوں کے لیے صرف 25فائر اسٹیشن ہیں۔کراچی جیسے غریب پرورشہر کو کبھی بھی حق نہیں دیا گیا بلکہ حق چھین لیا گیا ہے ،کراچی میں بڑھتے ہوئے مسائل عوام کی خاموشی سے ہی ہیں،ضرورت اس امر کی ہے کہ متحد و متفق ہوکر کراچی کے حقوق کے لیے جدوجہد کریں ۔کامران خلیلی نے کہاکہ کراچی میں مردہ جانوروں کی قیمتیں بھی لگائی جاتی ہیں اور شہریوں کو مردہ جانوروں کا گوشت کھلایاجاتا ہے ، ٹیکسز پورے لیے جاتے ہیں اور حکومتی نمائندے مردہ جانوروں پر مہر لگاکر مارکیٹ میں بھیجتے ہیں ، کراچی کے علاوہ تمام صوبوں میں گوشت کے حوالے سے بہت ہی مؤثر نظام موجود ہے ۔سلمان جاوید نے کہاکہ سندھ حکومت کی جانب سے منظور کردہ بلدیاتی ترمیمی بل کراچی دشمن فیصلہ ہے ۔کراچی منی پاکستان ہے اور پورے ملک کی نمائندگی کرتا ہے اس کے باوجود مسلسل کراچی کو نظر انداز کیا جارہا ہے ۔آباد کے رہنما حنیف میمن نے کہاکہ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے ، 67فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے ، 95فیصد انڈسٹریز کراچی کی بندرگاہ سے مستفید ہوتی ہیں مگرکراچی کا حال کھنڈرجیسا کردیا گیا ہے ، کاروباری طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہے ۔ کراچی کی تعمیر و ترقی کے لیے کوئی اقدامات نہیں ہو رہے ،تاجر برادری میں سے کوئی بھی کراچی میں سرمایہ کاری کے لیے تیار نہیں ۔معروف صنعت کار بابر خان نے کہاکہ جماعت اسلامی نے کراچی کے اہم اور دیرینہ مسائل کے حل کے لیے ایک توانا آواز بلند کی ہے ،کراچی میں انڈسٹری لگانا انتہائی مشکل کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے انڈسٹری مالکان کراچی سے پنجاب منتقل ہونے پر مجبور ہوگئے ہیں ۔محمد فیضان راوت نے کہاکہ کراچی کے عوام کا ہر طرح سے استحصال ہورہاہے ،مردم شماری اورکوٹہ سسٹم کے ذریعہ ہمارا حق سلب کیا جارہا ہے ۔شہر کو ری بلڈ کرنے کے لیے ماسٹر پلان بنانے کی ضرورت ہے۔شکیل احمد بیگ نے کہاکہ کراچی میں پانی تک فروخت کیا جاتا ہے ،عوام کو سستی بجلی نہیں ملتی ،اب گیس بھی نہیں مل رہی جب تک شہر کے مسائل اور معاملات کے لیے تمام ادارے ایک اتھارٹی کے تحت نہیں ہوں گے کراچی کی تعمیر مشکل ہے ۔شوکت مختار نے کہاکہ آج کراچی کے اندر حافظ نعیم الرحمن ایک رجحان سازکی صورت میں موجود ہیں اور ہر شعبے اور طبقے کے لوگوں کے مسائل کے لیے کوشش کررہے ہیں ،کراچی ایک میگا سٹی ہے ، ہم اس کی ضرورت پورا کرتے ہیں۔خواجہ طارق نے کہاکہ کراچی میں تقریبا ً 800میرج لان وہال موجود ہیں ،ہماری انڈسٹری کو بھی بے پناہ مسائل کا سامنا ہے اس سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے ،اس کی بندش سے پولٹری انڈسٹری بھی متاثر ہوئی ہے اور کروناکے باعث تو ہمیں ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے ،حکومت نے بلند و بانگ دعوے تو کیے لیکن عملاً ہماری انڈسٹری کو کوئی ریلیف نہیں ملا ۔ڈاکٹر ظفر الاسلام صدیقی نے کہاکہ ہماری انڈسٹری سے بھی سرمایہ کراچی سے باہر نکل گیاہے ،ہمیں سب سے پہلے قومی مزاج کو ٹھیک کرنا ہوگا ،پولٹری انڈسٹری ملکی معیشت میں ریڑھ کی حیثیت رکھتی ہے ،غیر ضروری چیزوں کے استعمال کو کم کرنا ہوگا جیسے کھانے کا تیل ،پرتعیش چیزوں کو کم کیا جائے ،حکومت اپنی رٹ قائم کرے اور امن و امان کی صورتحال بہتر کرے۔انجینئر صابر احمد نے کہاکہ بد قسمتی سے 1980سے آج تک ملک سے ذہانت کے جانے کا تناسب کراچی میں سے زیادہ ہے ،لوگو ں کا یہاں اپنا مستقبل محفوظ نہیں ہوتا ،آج میڈیکل کے طلبہ کے لیے بھی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ایک غیر سنجیدہ رویہ اختیار کررکھا ہے اور ہزاروں طلبہ اور والدین شدید پریشانی کا شکار ہیں ری بلڈ کراچی کے لیے شعبہ تعلیم کوبھی بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔جماعت اسلامی کی حقوق کراچی مہم کے تسلسل میں اس طرح کے سیشن یقناجہاں کراچی اور کراچی کے مسائل اور ان کے حل کو سمجھنے میں معاون ثابت ہونگے وہاں جماعت اسلامی نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ وہ صرف مسائل پر احتجا ج نہیں کررہی بلک ہ ان کا حل بھی پیش کررہی ہے اب یہ حکومت وقت کا کام ہے کہ وہ ان نکات کی روشنی میں کراچی کے لوگوں کو ریلیف فراہم کرے ۔