تعلیمُ الاخلاق

350

آپؐ کی بعثت تعلیم اور تزکیے کے لیے ہوئی، یعنی لوگوں کو سکھانا اور بتانا اور نہ صرف سکھانا اور بتانا، بلکہ عملاً بھی ان کو اچھی باتوں کا پابند اور بْری باتوں سے روک کے آراستہ وپیراستہ بنانا، اسی لیے آپ کی خصوصیت یہ بتائی گئی کہ ’’انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دے اور ان کو پاکیزہ بنائے‘‘۔ (البقرۃ: 2/129)
اور اسی لیے حدیث میں آیا ہے کہ ’’اور میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں‘‘۔ (ابن ماجہ، باب فضل العلماء)
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس معلم ربانی نے کن طریقوں سے اپنی اخلاقی تعلیم کے فرض کو انجام دیا۔ ایک کام یاب معلم کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ اس میں اپنے اپنے موقع پر سختی اور نرمی دونوں ہوں، وہ ایک جراح ہے، جس کے ایک ہاتھ میں نشتر ہو جس سے زخم کو چیر کر، فاسد مواد کو باہر نکال دے اور دوسرے ہاتھ میں مرہم ہو جس سے زخم میں ٹھنڈک پڑ جائے اور تن درست گوشت اور چمڑے کی پرورش ہو، اگر کسی جراح کے پاس ان دو میں سے صرف ایک ہی چیز ہو تو وہ نہ زخم کو پاک کرسکتا ہے اور نہ فاسد گوشت پوست کی جگہ تن درست گوشت پوست پیدا کرسکتا ہے۔
آپؐ کی تعلیم اخلاق کے طریقوں پر غور کی ایک نظر ڈالنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپؐ اپنی تعلیم میں سختی اور نرمی کے موقع ومحل کو خوب پہچانتے تھے اور اس پر عمل فرماتے تھے۔ عائشہؓ کہتی ہیں کہ آپؐ نے کبھی اپنی ذات کے لیے کسی سے بدلہ نہیں لیا، مگر یہ کہ کوئی شریعت کے حدود کو توڑے تو اس کو سزا دیتے تھے۔ (بخاری)
قریش کی ایک عورت چوری میں پکڑی گئی، بعض مسلمانوں نے اس کی سفارش کرنی چاہی تو آپؐ نے فرمایا: تم سے پہلے کی قومیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ جب ان میں معمولی لوگ گناہ کرتے تھے تو ان کو سزا دیتی تھیں اور جب بڑے لوگ گناہ کرتے تھے تو ان کو حکام ٹال جاتے تھے۔ (بخاری)
یہ تو سختی کی مثالیں ہیں۔ نرمی کی مثال یہ ہے کہ ایک دفعہ مسجد نبویؐ میں ایک دیہاتی آیا، اتفاق سے اس کو استنجے کی ضرورت محسوس ہوئی تو وہ وہیں مسجد کے صحن میں بیٹھ گیا، صحابہؓ یہ دیکھ کر چاروں طرف سے اس کو مارنے کو دوڑے۔ آپؐ نے روکا اورفرمایا کہ تم سختی کے لیے نہیں بلکہ نرمی کے لیے بھیجے گئے ہو۔ اس کے بعد اس بدوی کو بلا کر فرمایا کہ یہ عبادت کے گھر ہیں، یہ نجاست کے لیے موزوں نہیں، یہ خدا کی یاد اور نماز اور قرآن پڑھنے کے لیے ہیں، پھر لوگوں سے فرمایا کہ اس پر پانی بہادو۔ (صحیح بخاری)
اسی طرح ایک دفعہ ایک صحابی سے رمضان میں بحالت روزہ ایک غلطی ہو گئی، اس نے لوگوں سے کہا کہ مجھے آپؐ کے پاس لے چلو، انہوں نے کہا کہ یہ ہم سے نہ ہو گا تو وہ اکیلا آپؐ کے پاس پہنچا اور واقعہ بیان کیا۔ آپؐ نے فرمایا: ایک غلام آزاد کرو، عرض کیا: یارسول اللہؐ! میرے پاس تو ایک غلام نہیں۔ آپؐ نے فرمایا: دو مہینے لگاتار روزے رکھو۔ عرض کیا: روزے ہی میں تو یہ گناہ ہوا۔ فرمایا: تو ساٹھ مسکینوں کو کھلا دو، عرض کیا: ہم تو خود کنگال ہیں۔ فرمایا کہ اچھا بنی زریق کے صدقے کے منتظم کے پاس جاؤ اور اس سے صدقہ لے کر پہلے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ اور جو بچے وہ تم او رتمہارے گھر والے کھائیں، وہ خوش ہو کر اپنے قبیلے میں آیا اور کہا کہ تم کتنے سخت تھے، آپؐ نے کتنی نرمی کی۔ (ابوداؤد، باب فی الظہار)
یہ اور اسی قسم کے اور واقعات کو سامنے رکھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جہاں حدود الہی کی شکست کا خوف ہوتا تھا، وہاں نرمی نہیں برتی جاتی تھی لیکن جن امور میں وسعت ہوتی یا جہاں مستحبات اور اخلاقی فضائل ورذائل کا موقع ہوتا تھا۔ آپؐ نرمی سی سمجھا دیتے اور لطف ومحبت سے فرما دیتے تھے۔