امریکی قانون سازوں کا افغان معیشت کی تعمیر نو کیلئے مدد کا مطالبہ

412
An Afghan money changer exchanges currecny for a customer at the Money and Exchange Market in Kabul, Afghanistan, March 24, 2012. The business leaders that Afghanistan needs to succeed after allied forces withdraw their troops in 2014 are already making moves to leave the country. (Bryan Denton/The New York Times)

واشنگٹن:امریکا کے 9 سینئر قانون سازوں نے سیکریٹریز خارجہ اور خزانہ کو لکھے گئے خط میں افغانستان کی ناکام ہوتی معیشت کی تعمیر نو میں مدد اور اس کے اثاثے غیر منجمد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
میڈیارپورٹس کے مطابق امریکی قانون سازوں نے اپنے خط میں لکھا کہ یہ ایک ایسا طریقہ ہے جو امریکا، طالبان کو قانونی حیثیت فراہم نہ کرتے ہوئے افغانستان کی امداد پر منحصر معیشت کو تباہی سے بچانے میں مدد کے لیے اختیار کر سکتا ہے۔
خط میں سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن اور سیکریٹری خزانہ جینٹ یالین کو مخاطب کیا گیا کہ اور اس پر ایوان نمائندگان کی تین طاقتور کمیٹیوں کے سربراہان نے بھی دستخط کیے۔
قانون سازوں نے خط میں انتظامیہ کو یاد دلایا کہ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان مزید کروڑوں لوگوں کی مدد کریں جو سردیوں میں زندہ رہیں گے، اپنے بچوں کو کھانا کھلائیں گے اور پچھلے 20 سالوں کے دوران ہونے والی پیش رفت کو محفوظ کریں۔
انہوں نے عالمی خوراک پروگرام (ڈبلیو ایف پی)کی حالیہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے نشاندہی کی کہ افغانستان، معاشی تباہی کے دہانے پر ہے کیونکہ ایک کروڑ 84 لاکھ افغانیوں کو انسانی امداد کی ضرورت ہے جبکہ 30 فیصد آبادی کو ہنگامی یا بحرانی سطح پر تحفظ خوراک کا سامنا ہے۔
خط میں چار تجاویز دی گئی ہیں جن میں 9 ارب ڈالر سے زائد کے منجمد افغان اثاثوں کو اقوام متحدہ کی ایک مناسب ایجنسی کو جاری کرنا، افغانستان کے ساتھ کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیموں کے لیے پابندیوں سے استثنی کو بڑھانا، کثیر الجہتی تنظیموں کو ضروری کارکنوں کی تنخواہوں کی ادائیگی میں مدد کرنا اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو اقتصادی بحران کو روکنے کے لیے ضروری سرمایہ کاری کرنے کی اجازت دینا شامل ہے۔