سمجھ سے بالا تر

738

کہتے ہیں دنیا میں ایسی کوئی چیز نہیں جس کے ہونے کا جواز نہ ہو مگر پھر بھی کچھ چیزیں ایسی ہیں جو عقل کے دائرے سے باہر ہیں۔ جن کے بارے میں سوچ کر انسان کی ساری سوجھ بوجھ اور عقل و دانش بے بس ہو جاتی ہے۔
یہ ہمارے بچپن کا واقعہ ہے پڑوس کے خان صاحب کسی شخص پر سخت برہم ہو رہے تھے چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے تم مالی ہو مگر سارا شہر تمہاری مہارت کا دلدادہ ہے۔ ارے بھائی لوگ یہاں تک کہتے ہیں کہ ماہر نباتات کی مہارت بھی تمہارے سامنے پانی بھرتی ہے مگر تم تو انتہائی اور بڑ بولے نکلے تم نے میرے چکوترے کے درخت کو نجانے کتنے زاویوں سے دیکھا اور فیصلہ سنایا کہ یہ درخت کبھی پھل نہیں دے سکتا اب ذرا غور سے دیکھو اس میں پھل لگا ہوا ہے اور پھل بھی اتنا زیادہ کہ درخت کی شاخیں اس کے بوجھ سے جھک گئی ہیں نجانے اور کیا کہتے رہے جب خان صاحب بولتے بولتے تھک گئے تو مالی نے کہا آج جو بات بتا رہا ہوں وہ پہلے بتا دیتا تو آپ سارے شہر میں میری خبط الحواسی اور حماقت کے قصے سنا رہے ہوتے۔ کیا مطلب ہے تمہارا خان صاحب نے کہا۔ جواباً مالی نے کہا میں درخت دیکھ کر ہی سمجھ گیا تھا کہ جب تک اس کے نزدیک کوئی نر درخت نہیں لگایا جاتا یہ پھل نہیں دے گا۔ خان صاحب ذرا غور سے دیکھیں آپ کے پڑوس میں ارنڈ کا درخت اُگا ہوا ہے اسی لیے چکوترے نے پھل دینا شروع کر دیے ہیں اور ہم سوچنے لگے کہ درخت بھی نر اور مادہ ہوتے ہیں ایک ہی قومیت کے حامل ہوتے ہیں ان میں کوئی پنجابی کوئی سندھی کوئی بلوچی اور کوئی پٹھان نہیں ہوتا۔ مگر یہ بات سوچ سمجھ سے بالا تر ہے۔
ہماری سمجھ میں یہ بات بھی نہیں آتی کہ وطن عزیر میں وزیر اعظم کے ساتھ صدر مملکت کی پخ کیوں لگائی جاتی ہے۔ قومی خزانے پر صدر مملکت کا بوجھ ڈالنے کی کیا ضرورت ہے۔ یا یوں کہیے کہ صدر مملکت کی موجودگی میں وزیر اعظم کا خرچ برداشت کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ خیر ہمیںکیا معاملہ سیاستدانوں کا ہے وہی اس کے بارے میں بہتر سوچ سکتے ہیں مناسب اور معقول جواب دے سکتے ہیں۔ شاید ہم غلط سوچ رہے ہیں سیاست دان اقتدار کو عیاشی کا ذریعہ سمجھتے ہیں عوام پر کیا گزرتی ہے ملک پر کیا بیتی ہے۔ یہ اُن کے سمجھنے کی بات نہیں عوام تو اُن کے نزدیک ووٹ کاسٹ کرنے کی مشین ہوتے ہیں۔ ایک ایسی مشین جسے زنگ لگتا ہے نہ اس میں کوئی ٹیکنیکل خرابی آتی ہے بس یہ چلتی رہتی ہے۔ اس کے باوجود وزیر اعظم عمران خان ووٹنگ مشین سے عام انتخابات کرانے پر بضد ہیں جبکہ اپوزیشن نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ ووٹنگ مشینوں کو آگ لگا دیں گے۔
سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ اگر انتخابات کے دوران ووٹنگ مشین میں کوئی ٹیکنیکل خرابی آگئی تو کیا ہوگا۔ اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ وزیر اعظم عمران خان ووٹنگ مشین کے ذریعے صاف و شفافت انتخابات کرانا نہیں چاہتے اگر مشین میں کوئی ٹیکنیکل خرابی نہ بھی آئی تو ماہرین اس میں کوئی خرابی پیدا کر دیں گے۔ تاکہ قوم اور دنیا کو انتخابات کی شفافیت کا یقین دلایا جاسکے۔ یوں دھاندلی کا ایک یادگار ریکارڈ قائم ہو جائے گا۔ ایسے موقعوں پر ہمیں اپنا بھتیجا بہت یاد آتا ہے جو ہماری پیٹھ پر سوار ہو کر کہا کرتا تھا چل میرے گھوڑے ٹخ ٹخ۔ گویا عوام کی حیثیت ایک گھوڑے جیسی ہے جس پر سیاستدان سوار ہو کر صرف ٹخ ٹخ ہی کرتے ہیں کہ اس کے سوا انہیں کچھ آتا ہی نہیں اور المیہ یہ بھی ہے کہ وہ اس حقیقت کا ادراک بھی رکھتے ہیں کہ سیاست میں ناکام ہو گئے تو کیا کریں گے انہیں سیاست کاری کے سوا کچھ اور آتا ہی نہیں۔
عزت مآب جناب چیف جسٹس گلزار احمد کا فرمان ہے کہ ملازمت وارثت نہیں ہوتی کہ باپ کے بعد بیٹا یا بیٹی کو اس جگہ تعینات کیا جائے۔ چیف صاحب کے اس ارشاد گرامی سے کون انکار کر سکتا ہے۔ کوئی بدبخت ہی ہوگا جو چیف صاحب سے اختلاف رائے کا اظہار کر کے اپنی بد بختی کو آواز دے گا۔ آ بیل مجھے مار کے محاورے کا استعمال کر کے ہم توہین عدالت کی جسارت نہیں کر سکتے ہم کیا وکلا کے سوا کوئی بھی ایسا کہنا تو کجا سوچنے کا بھی متحمل نہیں ہوسکتا ایسے معاملات میں وطن عزیز کی عدلیہ بہت حساس ہے۔ اگر قومی معاملات میں ایسی ہی حساس ہوتی تو وطن عزیز عزیز عالم ہوتا۔
ووٹنگ مشین پر خان صاحب کی اٹکی ہوئی سوئی بھی سمجھ سے بالاتر ہے اس کی وجہ موصوف کا بیانیہ ہے۔ فرماتے ہیں کہ اپوزیشن کی سمجھ میں اتنی سی بات کیوں نہیں آتی۔ ملک چلانا گھر چلانے کے مترادف ہوتا ہے۔ پیسے کے بغیر گھر نہیں چل سکتا تو ملک کیسے چل سکتا ہے۔ خان صاحب درست فرمایا آپ نے بغیر پیسے کے گھرنہیں چل سکتا نہ ملک چل سکتا ہے چلنا تو دور کی بات ہے رینگ بھی نہیں سکتا۔ عوام کو خان صاحب کا یہ فرمان بھی یاد ہے کہ موجودہ تنخواہ میں اُن کا گھر نہیں چل سکتا۔ عوام کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ وزیر اعظم عمران خان تنخواہ کی مد میں ملنے والے لاکھوں روپے مراعات و دیگر سہولتیں تنخواہ سے بھی زیادہ ہیں اپنا گھر نہیں چلا سکتے عام آدمی جو 15 سے 20 ہزار ماہانہ کماتا ہے وہ اپنا گھر کیسے چلا سکتا ہے یہ کیسی بد نصیبی ہے کہ خان صاحب اپنے گھر کے بارے میں سوچتے ہیں جو کیسی بھی حکمرا ن کو زیب نہیں دیتا وہ جس منصب پر براجمان ہیں اس کے شایان شان بھی نہیں ہے۔
وزیراعظم عمران خان جو کچھ سمجھانا چاہتے ہیں یہ کسی کی سمجھ میں نہیں آسکتا کیونکہ موصوف روزانہ اپنا بیان بدل لیتے ہیں مگر یہ بات عوام اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ حکومت آئے دن جو قرض لے رہی ہے اس کا کیا کر رہی ہے شاید وہ اتحا دیوںکو نواز رہی ہو یہ عطیہ دینے والے کا منہ بند رکھنے کا کوئی منصوبہ بنا رہی ہو۔
تحریک انصاف کی طرز حکمرانی نے عوام کو لفظ انصاف ہی سے الرجک کردیا ہے اور عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ انہوں نے تحریک انصاف کو ووٹ دے کر اپنے ساتھ ہی نہیں اپنی نسلوں سے بھی ایسی ناانصافی کی ہے جس کی تلافی ممکن نہیں عوام کو یہ بھی احساس ہو گیا ہے کہ اپوزیشن تحریک انصا ف کی گرتی دیوار کو دھکا دینے سے کیوں گریزاں ہے عوام یہ بھی جان چکے ہیں کہ عمرا ن خان نے ملک کی معیشت کو اس حد تک کھوکھلا کر دیا ہے جسے بھرنے کے لیے کئی دہائیاں درکار ہیں سو عوام کی دہائیوں سے بچنے کے لیے اپوزیشن ریلیاں ہی نکالتی رہے گی عوام کا یہ یقین بھی پختہ ہو گیا ہے کہ جو شخص گھر نہیں چلا سکتا ملک چلانا اس کے لیے ممکن ہی نہیں یہ ایسا کار دشوار ہے جو دشواری کی سوا کچھ نہیں دے سکتا اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کیا سوچتے ہیں یہ توقع بے کارا ہے کہ موصوف کچھ سوچیں گے کیونکہ سوچنا ان کا مسئلہ ہی نہیں البتہ عوام یہ ضرورجانتے ہیں کہ سرپرست کیا سوچ رہے ہیں۔
غلطی ایک ایسا فعل جو انسان کی سرشت میں شامل ہوتا ہے اور سرشت سے نبرد آزما ہونا انسان کا مقسوم ہے۔ اب سوچنا یہ ہے کہ نبرد آزمائی کب ہو گی کہ آغاز کا اختتام لازمی امر ہے۔ اس سے فرار ممکن ہی نہیں یہ کیسی صورتحال کہ وزیر اعظم عمران خان حکومت سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ اور اپوزیشن اُن کی جان چھوڑنے پر آمادہ ہی نہیں ہوتی۔ سچ ہے شہد کھانے کا شوق سبھی کو ہوتا ہے۔ مگر شہد کی مکھیوں کا خوف چھتے سے دُور رکھتا ہے یہی عقلمندی اور دور اندیشی کا تقاضا ہے۔