زراعت کی حالت زار

799

پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے بھی پنجاب کو ہندوستان کا اناج گھر کہا جاتا تھا اس خطے میں ہر قسم کی زرعی اجناس پیدا ہوتی تھیں۔ بٹوارے کے نتیجے میں اگرچہ پنجاب بھی تقسیم ہوگیا لیکن جو حصہ پاکستان کے حصے میں آیا، اس کی اناج گھر کی حیثیت برقرار رہی اور وہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے دونوں حصوں کی کفالت کرتا رہا۔ مشرقی پاکستان بنگلادیش بن گیا تو پنجاب اس کی ذمے داری سے سبکدوش ہوگیا۔ لیکن اس کے باوجود اس میں زرعی پیداوار کی شرح گرتی چلی گئی اور اب حال یہ ہے کہ باقی ماندہ پاکستان کی کفالت تو کجا اسے خود اپنا پیٹ بھرنا بھی دشوار نظر آرہا ہے۔ گندم باہر سے درآمد کی جارہی ہے، ہر قسم کی دالیں باہر سے منگوائی جارہی ہیں۔ پیاز، ٹماٹر اور آلو بھی باہر سے آرہے ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے۔ کیا ہماری زمینیں بانجھ ہوگئی ہیں۔ یا ہم خود اِن زمینوں سے فائدہ اُٹھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ آخری بات ہی قرین قیاس معلوم ہوتی ہے اس کے متعدد اسباب ہیں، ہم یہاں چند اسباب کا ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
پہلا اور سب سے اہم سبب تو یہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد کسی بھی حکومت نے اسے ایک زرعی ملک سمجھنے کی زحمت نہ کی۔ کوئی ایسی زرعی پالیسی نہیں بنائی گئی جس کے ذریعے زراعت کی ہمہ جہت ترقی کو یقینی بنایا جاسکتا اور ہر قسم کی زرعی پیداوار میں ایک سسٹم کے تحت مسلسل اضافہ ہوتا رہتا۔ زراعت پر مبنی صنعتوں کے قیام پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ شوگر ملیں ضرور قائم کی گئیں لیکن ان پر ایک گروپ کی اجارہ داری رہی اور وہ گنے کے کاشتکاروں کا استحصال کرنے لگا۔ گندم، چاول اور دیگر اجناس کے کاشتکاروں کی حوصلہ افزائی اور ان کو مراعات دینے کے لیے کسی حکومت نے کوئی جامع اور مستقل پالیسی مرتب نہیں کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کا کاشتکار اور کسان طبقہ بے حال ہوتا چلا گیا اور زراعت میں اس کی دلچسپی بے توجہی کا شکار ہوگئی۔
ایک اور اہم سبب دیہات سے شہروں کی طرف آبادی کی بے تحاشا منتقلی بھی ہے۔ زرعی ملک ہونے کی وجہ سے آبادی کا کثیر حصہ دیہات یا گائوں میں مقیم تھا۔ لوگوں کا روزگار زراعت سے وابستہ تھا اور وہ گائوں میں رہنے کو ترجیح دیتے تھے۔ تعلیم کا رواج بھی اتنا عام نہ تھا لیکن جب دیہات کے لڑکے تعلیم حاصل کرنے کے لیے شہروں میں آئے تو شہری زندگی کی جاذبیت نے انہیں اسیر کرلیا۔ وہ دو ٹکے کی نوکری کے لیے اپنی آبائی وراثت اور زمین کی بادشاہت ترک کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ حالاں کہ کھیتی باڑی اور کاشتکاری سے زیادہ معزز پیشہ کوئی اور نہیں ہے۔ اگر جدید تعلیم یافتہ نوجوان زراعت میں آتا تو وہ زراعت میں جدید طور طریقے اپنا کر اسے غیر معمولی ترقی دے سکتا تھا۔ حکومتوں کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے شہروں میں تو زندگی کی جدید سہولتیں فراہم کیں لیکن گائوں کو نظر انداز کردیا۔ گائوں میں بجلی تو پہنچ گئی ہے، لوگ ٹیلی ویژن بھی دیکھتے ہیں لیکن پختہ سڑکیں اور گلیاں اور سیوریج کا جدید نظام شاید ہی کسی گائوں میں موجود ہو۔ گائوں میں صحت کے مراکز ہوسکتا ہے۔ مہلک بیماریوں کے علاج کے لیے شہروں میں اسپتالوں سے رجوع کرنا پڑتا ہے اور مریض اسپتال تک پہنچتے پہنچتے دم توڑ دیتا ہے۔ بہت سے دیہی علاقوں میں کھیت سے منڈی تک پختہ سڑکیں بھی نہیں ہیں، ایسے میں کسانوں کو اپنی محنت کا صحیح معاوضہ بھی نہیں مل پاتا اور وہ مایوس ہو کر محنت سے جی چرانے لگتے ہیں۔ دیہی علاقوں کی بدحالی اور پسماندگی کا بنیادی سبب ان علاقوں کے وڈیرے، چودھری اور سردار ہیں جو نہیں چاہتے کہ عوام خوشحال ہوں۔ ترقی کریں اور زیور تعلیم سے آراستہ ہوں۔ اندرون سندھ صورت حال یہ ہے کہ وڈیروں نے سرکاری اسکولوں میں بھینسیں پال رکھی ہیں اور اساتذہ ان کے ملازمین کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنخواہیں انہیں سرکاری خزانے سے ملتی ہیں، کام وہ وڈیرے کا کرتے ہیں۔ رہی تعلیم تو وہ جہالت میں منہ چھپائے رہتی ہے۔ پنجاب اور دیگر صوبوں میں بھی صورت حال زیادہ مختلف نہیں ہے۔ یہ سارے عوامل مل کر زراعت کی ترقی پر منفی اثرات مرتب کررہے ہیں۔ لوگ دیہات سے شہروں کی طرف نقل مکانی کررہے ہیں۔ آبادی کا توازن بگڑ رہا ہے، زمینیں ویران اور بنجر ہورہی ہیں اور اس کے نتیجے میں زرعی پیداوار مسلسل کم ہورہی ہے۔
زیر کاشت رقبے میں کمی کا ایک اہم سبب ملک میں ہائوسنگ سوسائٹیوں کی بھرمار ہے۔ سونا اگلنے والی قیمتی زرعی زمینوں کو اونے پونے خرید کر ان پر کنکریٹ کے شہر آباد کیے جارہے ہیں۔ اس کام میں ایک طاقتور قومی ادارہ پیش پیش ہے، وہ اپنی حساس قومی ذمے داری کو ایک طرف رکھ کر پورے ملک میں رہائشی منصوبوں پر کام کررہا ہے، جب کہ دفاعی مقاصد کے لیے جو زمین اس کے پاس ہے اسے بھی کمرشل بنیادوں پر استعمال کیا جارہا ہے۔ ان زمینوں پر میرج ہال تعمیر کیے گئے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے اس صورت حال پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ ذمے داران کو ہدایت کی ہے کہ دفاعی مقاصد کے لیے حاصل کردہ اراضی کو کسی صورت میں کاروباری مقاصد کے لیے استعمال نہ کیا جائے اور عدالت کو اس سلسلے میں فوری رپورٹ پیش کی جائے۔ کئی ماہ پہلے ملتان میں ہائوسنگ پروجیکٹ کے لیے آم کے ہزاروں درخت کاٹ دیے گئے جس پر عوامی احتجاج بھی ہوا لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ شجرکاری اور ملک میں موجود درختوں کی دیکھ بھال اور نگہداشت بھی درحقیقت زراعت ہی کا ایک شعبہ ہے جس پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ دودھ اور گوشت کی ضروریات پورا کرنے کے لیے کمرشل بنیادوں پر گائے، بھینس اور بکرے بکریاں پالنا بھی زراعت ہی کی توسیع ہے۔
دیکھا جائے تو زراعت کی ہمہ جہت ترقی اور زراعت پر بنی صنعتوں کے فروغ ہی پر ملک کی خوشحالی کا انحصار ہے اور جس روز افزوں مہنگائی میں قوم پس رہی ہے اس سے نجات مل سکتی ہے۔ یہ کام حکومتوں کے کرنے کا ہے اس کے لیے بیرونی امداد اور آئی ایم ایف کے آگے ہاتھ پھیلانے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ ہم دستیاب وسائل سے بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ ملک میں قابل کاشت زرعی زمینوں کا سروے کرکے انہیں پوری طرح استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کی جائے۔ قانون سازی کے ذریعے زرعی زمینوں کے غیر زرعی کمرشل استعمال پر پابندی لگائی جائے، کسانوں کو زیادہ سے زیادہ ترغیبات اور سہولتیں فراہم کی جائیں۔ فی ایکڑ پیداوار میں اضافے اور مختلف اجناس کے اچھے بیجوں کی فراہمی کے لیے ریسرچ اداروں اور زرعی یونیورسٹی کو فعال بنایا جائے۔ کسانوں کو بلاسود قرضے فراہم کیے جائیں گے۔ زراعت پر مبنی صنعتوں کو فروغ دیا جائے۔ اور ایک جامع زرعی پالیسی کے ذریعے ان تمام اقدامات کو یقینی بنایا جائے۔ آپ دیکھیں گے کہ سال دو سال ہی میں ملک کی قسمت پلٹ جائے گی اور خوشحالی ملک کے دروازے پر دستک دینے لگے گی۔