اُف ہمارا خراب ہوتا عالمی امیج

452

پاکستان میں زندگی کب بے امان نہیں رہی؟ سیاسی حکومتیں ہوں یا فوجی ڈکٹیڑز! کب انسانوں پر حملے معمول نہیں رہے؟ انسانی جان کی تقدیس کے حوالے سے کب ہماری تاریخ پوجے جانے کے قابل رہی ہے۔ یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں جب کراچی میں کئی کئی بستیوں میں ایک دو گھنٹے نہیں کئی کئی دن قاتل آزاد پھرتے رہے، قتل عام کے واقعات کہانیوں کی طرح گردش میں رہے، ہولناک جلی کٹی اذیت دی گئی بے حرمت لاشوں پر خاندان پھوٹ پھوٹ کر روتے رہے۔ بلدیہ ٹائون میں 11ستمبر 2012 کو بھتے کی عدم ادائیگی پر ایک فیکٹری میں آگ لگاکر 260 مزدوروں کو زندہ جلادیا گیا۔ 12مئی 2007 کو سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی کراچی آمد پر پورا شہر بھیانک قتل وغارت گری میں ڈوب گیا تھا۔ اس ایک دن میں نجانے کتنی بے گناہ لاشیں سڑکوں پر بکھری پڑی تھیں لیکن 56یا اس سے زائد بتائے گئے جب کہ 250 سے 300 افراد زخمی ہوئے۔ کراچی ہی میں رائو انوار کے ہاتھوں 400 سے زائد افراد ماورائے عدالت قتل کردیے گئے۔ عزیر بلوچ کے ہاتھوں قتل کیے گئے افراد کی تعداد بھی سیکڑوں میں بیان کی جاتی ہے۔ یہ صرف کراچی میں قتل وغارت کی ایک جھلک تھی۔
پورے ملک میں انسانی جان کی حرمت کا کیا حال رہا؟ بہتے خون، سسکیوں اور آہوں کی یہ داستان بھی غیر معمولی ہے۔ بلوچستان میں ہزارہ برادری کے لوگوں کے قتل کے واقعات ذہن میں لائیں۔ آنکھیں آج بھی آنسو ہو جاتی ہیں۔ سری لنکن شہری کا قتل پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اسی شہر اقبال میں ڈسکہ میں رمضان کے مہینے میں ڈکیتی کے شبہہ میں پولیس کی موجودگی میں ہجوم نے دو حافظ بھائیوں کو اس طرح ڈنڈے اور لوہے کی راڈیں مار مار کر قتل کیا تھا جیسے دھوبی کپڑے پٹختا ہے۔ نوے کی دہائی میں جاوید اقبال نامی قاتل نے لاہور میں سو بچوں کو جن کی عمریں 6سے 16سال تھیں زیادتی کے بعد قتل کردیا تھا۔ 2005 میں اس وقت کے وزیرداخلہ نے سینیٹ میں انکشاف کیا تھا کہ پاکستان میں 1998 سے لے کر 2004 تک سات برسوں میں 66ہزار افراد قتل ہوئے۔ یہ وہ واقعات ہیں جن کی رپورٹ تھانوں میں درج ہوئی۔ اس تفصیل میں جامعہ حفصہ کی بچیوں کا اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف ’’ہماری‘‘ جنگ میں ان افراد کے قتل کا ذکر نہیں جنہیں ریاست پاکستان نے قتل کیا۔ ان ایک لاکھ سے زائد افراد کا بھی ذکر نہیں جو اس بے چہرہ جنگ میں امریکی ایما پر کیے گئے دھماکوں، ڈرون حملوں اور جھڑپوں میں شہید ہوئے۔
سیالکوٹ میں سری لنکن شہری کا قتل ہماری اس خونی تاریخ کا ایک حصہ ہے جس کا پس منظر اور پیش منظر ہمارے حکمران طبقے کا تخلیق کردہ ہے جو اپنے شہریوں کے جان ومال کی حفاظت کو یقینی بناتا ہے اور نہ اس میں دلچسپی رکھتا ہے۔ جو قاتل گروہ پیدا کرتا ہے، انہیں منظم کرتا ہے اور ان کی سرپرستی کرتا ہے۔ وگرنہ 74برس سے اس ملک میں پٹھان، مہاجر، سندھی، بلوچی، شیعہ سنی مشترکہ بستیوں میں محلوں میں گلیوں میں ساتھ ساتھ رہتے اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ خوشی غم میں شریک ہیں۔ پاکستانی محبت کرنے والے لوگ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس ہلاکت پر پورا پاکستان دکھی ہو گیا۔ 22کروڑ کی آبادی میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں جس نے اس واقعے کی مذمت نہ کی ہو۔
سیالکوٹ واقعے پر بعض حلقوں کی طرف سے اس پہلو پر انتہائی زوردیا جارہا ہے کہ عالمی رائے عامہ کی نظر میں پاکستان کا امیج خراب ہوگیا ہے۔ ایک انسان انتہائی بے دردی سے قتل کردیا گیا اس سے زیادہ انہیں یہ پریشانی ہے کہ پاکستان کا عالمی امیج خراب ہوگیا ہے۔ اگر امیج خراب نہ ہوتا تو شاید پھر یہ قتل اتنی فکر کی بات نہ ہوتا۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہیں پردہ کرنے، گھر کی چاردیواری میں خاندان کی پرورش کرنے اور دفتروں میں نوکری نہ کرنے پر عورتوں کے حقوق پا مال نظرآتے ہیں۔ کسی ایک عورت پر تشدد کا کوئی واقعہ ہوجائے تو عالمی میڈیا پر اس طرح شور کرتے ہیں جیسے پاکستان میں ہر عورت قاتلوں کے نرغے میں گھری ہوئی ہے، ریپ کا، کسی بچی بچے سے زیادتی کا کوئی واقعہ ہوجائے، تو یوں اچھل پڑتے ہیں جیسے کرہ ارض پر پاکستان ہی وہ واحد خطہ ہے جہاں ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ کسی مدرسے میں طالبعلم کی پٹائی یا کسی استاد کی کوئی ویڈیو سامنے آجائے تو یہ سیکولر اور ترقی پسند دینی مدارس کے خلاف یوں صف آرا ہوجاتے ہیں کہ شیطان بھی فارغ ہوکر بیٹھ جاتا ہے۔ ہر وہ ظلم اور زیادتی جس میں دین اسلام کی غلط تعبیر اور تشریح موجود ہو ان روشن خیالوں کو اپنے سوراخوں سے باہر آنے اور شور کرنے کا موقع مہیا کردیتا ہے۔
جس عالمی رائے کی فکر کی جارہی ہے اس سے مراد ہے یورپ، امریکا، عیسائی دنیا۔ جس کا حال یہ ہے کہ اگر امریکی پابندیوں کی وجہ سے عراق میں پانچ لاکھ سے زائد بچے ہلاک ہو جائیں تو امریکی وزیرخارجہ میڈلین البرائٹ کے نزدیک یہ نہ صرف کوئی تشویش کی بات نہیں بلکہ قابل قبول ہے۔ اسرائیل غزہ کی پٹی کو خون کا تالاب بنادے، عالمی رائے عامہ کی ایک سسکی کی آواز بھی کہیں سنائی نہیں دیتی۔ شام میں روس، امریکا، برطانیہ اور بشارالا سد کی فوجیں کیمیکل ہتھیار، کلسٹر بم اور نجانے کیسے کیسے مہلک ممنوع ہتھیار استعمال کریں کہیں تشویش پیدا نہیں ہوتی۔ امریکا افغانستان میں بموں کی ماں (MOB) استعمال کرے، راکٹوں، ڈرونز اور کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے لاکھوں مسلمانوں کو شہید کردے سب جائز سب قبول۔ بھارتی درندہ نریندر مودی گجرات میں مسلمانوں کا بے دریغ قتل عام کرے، بی جے پی اور آر ایس ایس کے قاتل شہر شہر گلی گلی مسلمانوں کو چن چن کر ماریں، جلائیں، مقبوضہ کشمیر کو بھارتی فوجیں دنیا کا سب سے بڑا عقوبت خانہ بنادے، عورتوں کی عزت پامال کریں، گھروں میں گھس کر قتل کریں، مستقل کرفیو لگائے رکھیں، احتجاج پر گولیوں کی بارش کردیں عالمی رائے چپ سادھے دیکھتی رہتی ہے کیونکہ بھارت ان کے مال کی سب سے بڑی منڈی ہے۔
اسلام کے باب میں اس عالمی رائے عامہ کا حال یہ ہے کہ ہر اس کام کو جائز سمجھتی ہے جس سے اسلام کی مذمت کی جاسکے، عالی مرتبت محمد عربیؐ کی توہین ہوسکے۔ نبی کریمؐ کے خاکے بنانا یہ نام نہاد عالمی رائے عامہ اپنا حق سمجھتی ہے۔ توہین رسالت پر سزا کو یہ ظلم تصور کرتی ہے۔ مسلم خواتین کا حجاب برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اسلامو فوبیا مغرب میں اب ایک اقلیت کا کردار نہیں ہے بلکہ نائن الیون کے بعد پورا یورپ اور امریکا اسلام فوبیا میں ڈوب چکا ہے۔ ہم ان لوگوں کی نظر میں اپنا امیج بنانے کی فکر میں گھلے جارہے ہیں اللہ کی آخری کتاب جنہیں مسلمانوں کا ابدی دشمن قراردے رہی ہے۔
کسی بھی شخص پر جھوٹا الزام لگا کر، جرم ثابت ہوئے بغیر سزا دینا، تشدد کرنا، جان سے ماردینا اور مارنے کے بعد جلادینا بذات خود غلط ہے چاہے عالمی امیج بگڑے یا سنورے اس لیے کہ میرے اللہ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ سیالکوٹ واقعے کی مذمت کرنا، قاتلوں کو فوری سزادینا اس لیے لازم ہے کہ ہجوم کا یہ عمل سراسر خلاف اسلام ہے۔ اسلام میں ایسے اعمال کی کوئی گنجائش نہیں۔ اگر اس ملک میں شریعت کا قانون نافذ ہوتا تو ایسا واقعہ پیش ہی نہ آتا اور اگر پیش آتا بھی مجرم چند ہفتوں اور مہینوں میں نشان عبرت بن چکے ہوتے۔ اسلام مغرب نہیں ہے کہ مجرم اپنے ہوں تو جرمنوں کی طرح یہودیوں کے قتل کا جواز ڈھونڈے یا امریکا کی طرح عراق میں پانچ لا کھ بچوں کے قتل کو قابل قبول قرار دے۔ یہ اسلام ہے، انسانی حقوق کا سب سے بڑا محافظ، معاشرتی امن کو برقرار رکھنے کا سب سے بڑا حامی یہ میرے آقا رحمت للعالمینؐ پر نازل کردہ دین ہے جو قرار دیتا ہے کہ ’’گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کرو‘‘ (المائدہ: 2)۔ رسالت مآبؐ سے یہ کلمات بھی منسوب ہیں کہ ’’جو آدمی ظالم کی تائید کے لیے چل کر جاتا ہے اور وہ یہ جانتا بھی ہے کہ یہ ظالم ہے تو ایسا شخص اسلام سے خارج ہو جاتا ہے‘‘۔ جس دین کی یہ تعلیمات ہوں وہ ظلم اور ظالم کو کیسے برداشت کرسکتا ہے؟