میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں

835

مسافر تھا۔ پردیسی تھا۔ تمہارے ملک میں اپنے حصے کا رزق لینے آیا تھا۔ نوکری کرنے آیا تھا بس۔ مہمان تھا۔ غیر مسلم تھا، عربی نہیں پڑھنا آتی تھی اسے یار۔ کیا معلوم کہ درود لکھا ہے یا کلمہ۔ پھاڑ کے پھینک دیا، گناہ کیا؟ اگر کوئی دیوانہ، مجنون، پاگل قرآن کا صفحہ پھاڑ کر پھینک دے تب کیا کرو گے؟ مار ڈالو گے؟ پاگل دیوانے پر دنیا جہان کا کوئی اصول لاگو نہیں ہوتا۔ اسی طرح غیر مسلم پر شرعی قوانین لاگو نہیں ہوتے۔ نہیں لاگو ہوتے یار۔ اسے تو عربی پڑھنا نہ آتی تھی، شعور ہی نہ تھا کہ کیا لکھا ہے۔ سمجھا دیتے اسے۔ پیار سے۔ محبت سے۔ وضاحت کردیتے کہ یہ درود لکھا ہے۔ اس میں ہمارے نبی کا نام لکھا ہے۔ مسکراتے۔ سمجھاتے۔ وہ شرمندہ ہوجاتا۔ معذرت کرتا۔ وہ تم سے معذرت کرتا۔ وہ کہتا کہ اسے معلوم نہیں تھا کہ یہ قابلِ احترام شے تھی۔ وہ معذرت کرتا۔
مگر… مگر کیا کیا تم نے؟ مار ڈالا اسے؟؟ پکڑ لیا۔ گریبان میں ہاتھ ڈالا۔ وہ گھبرایا۔ اسے تو پنجابی نہ آتی تھی۔ انگریزی میں پوچھتا رہا ہوگا کہ بھائی کیا کیا ہے میں نے۔ تم نے تھپڑ دے مارے۔ پھر گھسیٹتے ہوئے باہر لے آئے۔ ’’گستاخ۔ گستاخ‘‘ کے نعرے لگائے۔ مزید عوام اکٹھے کیے۔ لوگ بھڑکائے۔ پھر کیا کیا؟ پھر اس کے سر میں ڈنڈے مارے اور چہرے پہ پتھر پھینکے؟ تب اسے ماں یاد آئی ہوگی۔ ہاں۔ ماں یاد آئی تو ہوگی اسے۔ سری لنکا کے کسی خاموش محلے کے کونے والے گھر میں سبزی بناتی ہوئی ماں۔ مائیں تو سانجھی ہوتی ہیں۔ ہیں ناں؟ تمہاری بھی تو ہے۔ ماں۔ مگر تم نہ رکے۔ نہ تھمے۔ ادھ مرے کو ٹانگ سے پکڑ کر سڑک پر گھسیٹتے رہے؟ اور پھر… اور پھر جلا دیا؟ تم نے بندہ جلا دیا؟؟ ارے… بندہ ہی جلا دیا۔ آگ میں جلا دیا۔ پھر کیا کیا؟ سیلفیاں لیں جلتے انسان کے ساتھ ؟ سیلفیاں۔ لبیک یا رسول اللہ کے نعرے۔ الامان۔ بندہ جلا دیا۔
میں کیا لکھوں اور تم کیا پڑھو گے۔ سکوت سا ہے ہر سو۔ عجب سا۔ فضا میں بْو ہے۔ گوشت جلنے کی بْو؟ دیکھو تو ذرا۔ آگے بڑھ کے دیکھو آیا گوشت جلنے کی بْو تو نہیں؟ نہیں۔ تم سب کے ضمیر جلنے کی بْو ہے بدبختو۔ اس کی ماں کو اب تک خبر مل گئی ہوگی۔ بیوی بچے بھی ہوں گے۔ بھائی بھی اور اس کی بہنیں۔ بہنوں کو کون صبر دلائے گا اب؟
مسافر تھا۔۔ پردیسی بھی۔۔ مہمان بھی تھا۔۔ غیر مسلم بھی تو تھا۔ جانے دیتے۔۔ تمہارا کیا جاتا؟
وہ کیا محرکات تھے جس کی وجہ سے یہ افسوس ناک اور پر تشدد واقعہ رونما ہوا۔
ریانتھا دیاوادنا فیکٹری میں بطور جنرل منیجر پروڈکشن ایمانداری سے کام کررہا تھا ورکرز اور دوسرا عملہ غیر ملکی مینیجر کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ پولیس تحقیقات کے مطابق ریانتھا دیاوادنا اور فیکٹری کے دوسرے عملے میں اکثر تکرار ہوتی رہتی تھی، ریانتھا دیاوادنا کے خلاف ورکرز اور سپروائزرز نے مالکان سے کئی بار شکایات بھی کی تھی۔ تحقیقات کے مطابق واقعہ کے روز ریانتھا دیاوادنا نے پروڈکشن یونٹ کا اچانک دورہ کیا تھا اور صفائی کی ناقص صورتحال پر ورکرز اور سپروائزر کی سرزنش کی تھی۔ پولیس کے مطابق فیکٹری مینیجر پریاتھا کمارا نے ورکرز کو دیواروں پر رنگ کے لیے تمام اشیا ہٹانے کا کہا تھا اور خود بھی دیواروں سے چیزیں ہٹاتا رہا، تحقیقات کے مطابق پوسٹر اتارنے پر ورکرز نے شور مچایا تو مالکان کے کہنے پر پریاتھا کمارا نے معذرت کرلی تھی۔ جس سپروائزر کی پریاتھا کمارا سرزش کی اسی نے بعد ورکرز کو اشتعال دلایا تھا۔ پولیس کے مطابق ریانتھا دیاوادنا فیکٹری میں بطور جنرل منیجر پروڈکشن ایمانداری سے کام کرتا تھا اور قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرتا تھا، فیکٹری مالکان اس کے کام سے خوش تھے۔
آپؐ نے ارشاد فرمایا! خبردار! جس نے اقلیتی مرد پر ظلم کیا یا اس کا حق مارا یا اس کی اسطاعت سے بڑھ کر بوجھ ڈالا یا اس کی دلی رضا مندی کے بغیر کوئی چیز چھین لی تو قیامت کے دن میں (یعنی رسول اللہؐ) اس اقلیتی فرد کی طرف سے (ظالم سے) جھگڑا کروں گا۔ (سنن ابو داود)