نظام انصاف میں لگی دیمک

774

یہ 2014ء کی بات ہے۔ توہین مذہب کے الزام میں مسیحی بھائی ساون مسیح کو ایک ٹرائل عدالت نے سزائے موت کا حکم سنایا۔ وہ سات برس قید رہا۔ سات سال بعد اکتوبر 2020ء میں لاہور ہائی کورٹ نے ساون مسیح کی سزا کو ختم کرتے ہوئے انہیں مقدمے سے بری کردیا۔ ساون مسیح ہی تھا جس کے خلاف 2013ء میں توہین مذہب کا الزام شاہد عمران نامی شخص نے لگایا تھا۔ جس کے بعد لاہور کے بادامی باغ کے علاقے جوزف کالونی میں مشتعل ہجوم نے دھاوا بول دیا اور گھروں کو آگ لگادی۔ اس کالونی میں مسیحی برادری رہتی تھی۔ اس واقعے میں سو سے زائد گھروں کو نذر آتش کیا گیا تھا۔ پولیس نے سو سے زائد افراد ہی کو گرفتار کیا۔ تاہم عدالت نے ناکافی شواہد کی بنا پر سب کو بری کردیا۔ اسی طرح پشاور میں توہین مذہب کے الزام میں گرفتار شخص کو عدالت میں ہلاک کرنے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی۔ بعد میں دوسری کوشش میں عدالت میں انہیں گولی مار دی گئی۔ ایک اور واقعے میں جنوبی سندھ میرپور خاص کے قریب ایک شہر پھلڑیوں میں مقامی ہندو ڈاکٹر کی جانب سے قرآن کی بے حرمتی کی خبروں کے بعد بڑی تعداد میں ڈنڈا بردار مشتعل افراد نے ہندوئوں کی دکان جلا ڈالیں۔ یہ مئی 2019ء کا واقعہ ہے۔ جنوبی سندھ کے اس شہر کے یونین کونسل کے منتخب چیئرمین لکشمن کا کہنا ہے کہ ان کو سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ کیسے ہوا کیوں کہ شہر کی تاریخ میں ایسا واقعہ پہلے کبھی نہیں ہوا۔ علاقے میں ہندو اور مسلمان بھائیوں کی طرح رہتے ہیں۔
مئی 2021ء اسلام آباد کی بستی گولڑہ میں رہائشی ایک شخص کے بارے میں مذہبی شخصیات کی توہین کا مقدمہ درج کیا گیا جس کے بعد ایک ہجوم نے ملزم کو خود سزا دینے کے لیے تھانے پر ہلہ بول دیا۔ ہجوم بضد تھا کہ ملزم کو اس کے حوالے کیا جائے تاکہ وہ خود اس کو سزا دے سکیں۔ ہجوم کے پاس اسلحہ موجود تھا۔ گولیاں چلائی گئیں، پولیس اہلکار گولیوں سے زخمی ہوئے۔ البتہ پولیس نے لاٹھی چارج اور آنسو گیس استعمال کرکے اس شخص کو مشتعل ہجوم کے عتاب سے بچالیا۔
یہ پاکستان کے طول و عرض میں ہونے والے پچھلے دس سال کے واقعات ہیں۔ ایک سوال ان واقعات کی خبروں سے سب سے پہلے ذہن میں اٹھتا ہے وہ یہ کہ آخر لوگ ملزموں کو خود سزا دینے کے لیے اتنے بے تاب کیوں ہوتے ہیں۔ یہ واقعات تو توہین مذہب کے تھے لیکن آج کل یہ چلن ہر طرح کہ چھوٹے بڑے معاملے میں نظر آتا ہے۔ چور پکڑے گئے، لوگ پٹرول مٹی کا تیل ڈھونڈنا شروع ہوگئے۔ حادثہ ہوا تو بغیر یہ دیکھے کہ قصور کس کا ہے، پیسے والے فرد کی جیب خالی کرنے کے لیے سب کھڑے ہوگئے اور گردن موٹی ہے تو پتلی گردن والے پر ہاتھ ڈال دیا جاتا ہے۔ کوئی تو ملے جس کی چمڑی ادھیڑی جاسکے۔ توہین مذہب تو پھر ایک سنگین جرم ہے جو مذہبی جذبات ابھار دیتا ہے۔ لیکن عدل و انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ جرم خوا کتنا ہی بڑا ہو، کتنا ہی سنگین ہو، اس کے ارتکاب کرنے کے ثبوت اتنے ہی مضبوط اور شکوک سے مبرا ہونے چاہئیں، پھر ثبوت بھی خواہ آنکھوں دیکھے کانوں سنے ہوں۔ لیکن یہ کسی طرح جائز نہیں کہ کسی کو موقع ہی پر الزام لگا کر عدالت کھڑی کردی جائے اور بھیانک سزائیں سنا ڈالی جائیں، پھر صرف سنائی نہیں جائیں بلکہ عمل درآمد کر ڈالا جائے۔ یہ نہ عدل ہے نہ انصاف، یہ تو خود ایک بھیانک وحشیانہ جرم ہے۔ اسلام سے اس کا دور دور تک تعلق نہیں بلکہ یہ تو خود توہین اسلام ہے اور اسلام کی بدنامی کا سبب ہے۔ یہ سوال انتہائی اہم ہے کہ لوگ خود عدالت اور خود ہی جج بننے پر کیوں تل جاتے ہیں۔ تازہ مثال سری لنکن شہری کی ہے۔ غور کرنے سے اس کی وجہ جو سمجھ میں آتی ہے وہ پاکستان میں نظام انصاف میں لگی دیمک ہے۔ جو اسے اس قدر چاٹ چکی ہے کہ وہ بس آخری سانس لے رہا ہے۔ عوام کو نظام انصاف پر کسی قسم کا بھروسا نہیں رہا ہے۔ لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے ایسے دیمک لگے سست اور مہنگے نظام کے بجائے متبادل راستوں کو تلاش کرتے ہیں، یہ راستے کچھ جذباتی صورت حال میں شدت پسندی کو اکسا کر قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کے ہوتے ہیں۔ لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق اس وقت انیس لاکھ مقدمات مختلف عدالتوں میں فیصلوں کے منتظر ہیں۔ ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو عشروں سے انصاف کے لیے انتظار گاہ میں ہیں۔ برسوں سے منتظر مقدمات کی تعداد سولہ لاکھ سے زائد ہے۔ دنیا بھر میں ریکارڈ توڑ فیصلہ یہ ہوا کہ ابھی حال ہی میں ہماری عدالتوں نے سو سال پرانے مقدمے کا فیصلہ سنایا۔ یہ ایک مثال ہے کہ ہمارا فراہمی انصاف کا نظام ساری دنیا میں انتہائی آخری سطح کا ہے۔ یعنی ایک سو پچیس ممالک میں ایک سو سترہ کی پوزیشن پر ہے۔ اس ترقی یافتہ دور میں یہ حال ہے جب کہ برصغیر کے دور میں نظام انصاف کس قدر تیز اور فوری تھا کہ اس نظام انصاف کے باعث مغل بادشاہوں نے سیکڑوں سال حکومت کی۔ علاقائی، مذہبی اور پنچایتی سطح پر نظام انصاف مضبوط بنایا۔ اس کی حفاظت کی۔ صاحب اقتدار ہو یا خود بادشاہ نظام انصاف اس پر بھی لاگو ہوتا تھا۔ بادشاہ خود سائل کی موجودگی میں مقدمے کی سماعت کرتا تھا۔ سزا رعایا کے سامنے دی جاتی تا کہ جرم کرنے کا رجحان خوف کی وجہ سے کم ہو۔ افسوس کہ آج بھی ہماری تعلیم پولیس، جیل، عدلیہ اسی قانون کے تحت کام کررہی ہیں جو لارڈ میکالے نے بنایا تھا۔ افسوس یہ ہے کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں۔ اور غلام ہونے پر نہ صرف مطمئن ہیں بلکہ فخر کرتے ہیں اور نظام کی تبدیلی کے لیے تیار ہیں۔