سیاستدانوں کی نااہلی کے باعث پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ ترکی کی طرح کمزور نہیں ہوسکتی

650

کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) سیاستدانوںکی نااہلی کے باعث پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ ترکی کی طرح کمزور نہیں ہو سکتی ‘ سیاسی تاریخ اور نظام مختلف ہونے کے باعث دونوں ممالک کاموازنہ ممکن نہیں‘ ترک لیڈرشپ عوام کی خدمت اور پاکستان کی بینک بیلنس بڑھاتی ہے‘ ہمارے ملک میں سیاسی جماعتوں نے جمہوریت کا بہت زیادہ غلط استعمال کیا ہے۔ان خیالات کا اظہار مسلم لیگ فنکشنل و گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی رہنما و رکن سندھ اسمبلی نصرت سحر عباسی، پاکستان انسٹی ٹیوٹ برائے پارلیمانی خدمات (پی آئی پی ایس) کے سا بق ایگزیکٹو ڈائریکٹر ظفر اللہ خان اور پاکستان کے مقبول ترین موٹیویشنل اسپیکر، ٹرینر، استاد اور23 کتابوں کے مصنف ڈاکٹر محمد عارف صدیقی نے جسارت کی جانب سے پوچھے گئے اس سوال جواب میں کیا کہ’’کیا ترکی کی طرح پاکستان میں بھی اسٹیبلشمنٹ کمزور پڑ سکتی ہے؟ نصر ت سحر عباسی نے کہا کہ سب سے پہلے ہمیں اسٹیبلشمنٹ کوسمجھنا ہوگا کہ یہ اسٹیبلشمنٹ ہے کیا؟ اور کہاں ہے؟ پاکستان میں اس کا نام تو بڑے زور و شور سے لیا جاتا ہے لیکن یہ کون لوگ ہوتے ہیں اس بارے میں کوئی کھل کر بات نہیں کرتا ہے کہ یہ اسٹیبلشمنٹ قومی ہے یا بین الاقوامی ہے‘ اس پر بھی بات ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو آئین اور جمہوریت کی پاسداری کرنی چاہیے‘ ہمارے ملک میں ترکی کی طرز پر سیاست نہیں ہونی چاہیے‘ پاکستان میں اس کی روح کے مطابق جمہوریت کو آگے بڑھنا چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی سندھ اسمبلی میں اکثریت ہے‘ اس کے ایک اجلاس پر عوام کے لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں لیکن اس اسمبلی میں عوام کے مفادات کے لیے کوئی بات نہیں کی جاتی ہے‘ سارے وزرا اپنی ناجائزدولت کو تحفظ دینے کے لیے اسمبلی میں آکر باتیں کرتے ہیں جوغلط روایت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یہ بات افسوس کے ساتھ کہنی پڑتی ہے کہ جمہوریت کا نام لیکر سیاست کرنے والی جماعتوں نے جمہوریت کا بہت زیادہ غلط استعمال کیا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے عوام سیاست دانوں سے مایوس ہیں لیکن پھر بھی میں کہتی ہوں پاکستان میں جمہوریت ہی کو اس کی روح کی مطابق پروان چڑھنا چاہیے۔ ظفر اللہ خان نے کہا کہ ترکی کی طرح پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کمزور نہیں پڑ سکتی ہے کیوں کہ ترکی کی اپنی ایک تاریخ ہے ‘ان کا اپنا ایک نظام ہے‘ ہم کسی طور پر بھی ترکی کی طرز پر سیاست نہیں کرتے ہیں‘ پاکستان میں سیاست دانوں کو اپنے معیار کو بلند کرنے کی ضرورت ہے‘ اس کے بعد ہی پاکستان میں سیاسی شعور اجاگر ہوسکتا ہے جس طرح کی سیاست پاکستان میں سیاست دان کر رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کمزور نہیں ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر محمد عارف صدیقی نے کہا کہ ترکی اور پاکستان کی سیاست میں بنیادی فرق ہے‘ ہم سب کو اس بات کو سمجھنا چاہیے‘ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ترکی کی لیڈرشپ نہ صرف اسلامی اقدار پر یقین رکھتی ہے بلکہ عوام کی فلاح پر بھی یقین رکھتی ہے جبکہ ہمارے یہاں کی لیڈرشپ الیکشن جیت کر اپنے لوگوں کو نوازنے اور بینک بیلنس بڑھانے پر یقین رکھتی ہے چاہے اس کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو‘جب تک یہ فرق دور نہیں ہوتا‘ ہمیں پاکستان کا ترکی سے موازنہ نہیں کرنا چاہیے‘ ترکی اس وقت بین الاقوامی سازشوں کا گڑھ ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ ان سازشوں سے نمٹنے کے لیے ترکی میں ہزاروں تنظیمیں کام کر رہی ہیں ‘کچھ زیر زمین اورکچھ منظر عام پر کام کر رہی ہیں جو لوگوں کو معاشرتی و اسلامی اقدار سکھاتی ہیں‘ وہ ترکی جہاں پر مسجدوں کو تالے لگا دیے گئے تھے‘ عربی میں اذان دینے پر ان کے وزیراعظم تک کو پھانسی دے دی گئی تھی لیکن ان کے اخلاقی اقدار نے ایسی بازی پلٹی کہ آج جگہ جگہ مساجدآباد ہیں جگہ جگہ پر رفاہی تنظیمیں موجود ہیں جبکہ پاکستان میں اس کا الٹ ہے‘ پاکستان میں گردواروں اور مندروں کو جگہ دی جاتی ہے، احمدیوں کو پروموٹ کیا جاتا ہے اور مسلمانوں کو دبایا جاتا ہے تو جب تک یہ فرق دور نہیں ہوگا ‘یہ تصور کرنا کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کمزور ہوجائے گی یہ ایک شیخ چلی کا خواب ہے‘پاکستان میں 2 طرح کی اسٹیبلشمنٹ ہے‘ نمبر ایک نیشنل اسٹیبلشمنٹ اور دوسری بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ ہے‘ پاکستان کو بیک وقت ان دونوں اسٹیبلشمنٹ سے لڑنا پڑتا ہے جبکہ ترکی میں انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ترکی کے سارے عوام ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور وہاں کی حکومت ان کے ساتھ کھڑے ہیں جب کہ ہماری حکومت ان کی جھولی میں بیٹھی ہے یہ ایک بنیادی فرق ہے۔