گوادر میں چین کے فوجی نہیں ،معاشی اڈے ہیں،معید یوسف

237

اسلا م آباد(صباح نیوز) قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے کہاہے گوادر میں چین کے فوجی نہیں معاشی اڈے ہیںجو سب کے کھلے ہیں،برطانوی نشریاتی ادارے کے پروگرام میں مختلف سوالو ں کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گوادر میں چین کے فوجی اڈے نہیں بلکہ اکنامک بیسز ہیں۔ امریکا اور روس کو بھی معاشی شراکت داری کی پیش کش کی ہے۔ اب ہمارے معاشی اڈے سب کے لیے کھلے ہیں۔ڈاکٹر معید یوسف نے واضح کیا کہ ان کے ملک کی حکمت عملی اور سوچ میں بڑی تبدیلی آئی ہے جس میں اب جیو سٹریٹیجک کے بجائے جیو اکنامک ضروریات پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، جس کے لیے رابطوں کے مسائل کا حل اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے شراکت داری اہم ہوتی ہے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں اتار چڑھائوآتا رہا ہے اوربدقسمتی سے جب امریکاکا مفاد پورا ہو جاتا ہے تو پاکستان کو ایک طرف کر دیا جاتا ہے مگر پاکستان امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے۔ اس وقت دو طرفہ بہت اچھی بات چیت چل رہی ہے لیکن افغانستان کے معاملے پر عدم اعتماد اب بھی باقی ہے۔ مشیر قومی سلامتی نے کہاکہ ہم چاہتے ہیں کہ پوری دنیا سے لوگ پاکستان آئیں اور معاشی شراکت داری کریں۔ اب ہم فوجی اڈوں کی پیشکش کے دھندے میں نہیں مگر ہمارے اکانومک (معاشی)اڈے سب کے لیے کھلے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان معاشی بنیادوں پر تمام ممالک کے لیے کھلا ہے اور یہ پیشکش امریکاکے لیے بھی ہے۔گوادر بندرگاہ پر ایک اور سوال کے جواب میں معید یوسف نے جواب دیا کہ چین کی 60 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری لیکن شاید دوست اسی لیے ہوتے ہیں۔ ہمارا چین سے سٹریٹیجک تعلق ہے اور ہمیشہ رہا ہے اور ہمارے آپسی تعلقات مضبوط سے مضبوط ہوتے جا رہے ہیں، لیکن یہ تعلقات کسی اور ملک کی قیمت پر نہیں۔میں گوادر کے بارے میں واضح کرتا جائوں کہ وہاں (چین کے)کوئی فوجی اڈے نہیں بلکہ وہاں اکنامک (معاشی) اڈے ہیں اور ہم نے امریکا، مشرق وسطی اور روس کو بھی ان معاشی اڈوں کی پیشکش کی۔معید یوسف نے کہا کہ وہ اس بات پر حیران ہیں کہ چین میں انسانی حقوق کا سوال بار بار کیسے سامنے آتا ہے۔اس بارے میں بات نہیں کی جاتی کہ مسلم دنیا اور انسانی حقوق کے بہت سے ایسے معاملات ہیں جو پاکستان اٹھاتا رہتا ہے۔معید یوسف نے کہا کہ میں جب کشمیر کی بات کرتا ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ میں دوسرے ملک کے لوگوں کی نہیں بلکہ اپنے لوگوں کی بات کر رہا ہوں۔ میں ایسے علاقے پر غیر قانونی قبضے کی بات کرتا ہوں، جسے اقوام متحدہ متنازع قرار دے چکی ہے۔ اپنے لوگوں کے لیے بولنا میرا حق ہے کیونکہ میں کسی دوسرے ملک کے لوگوں کی بات نہیں کر رہا۔ جہاں تک چین کی بات ہے تو سنکیانگ کے بارے میں ہم مغربی نقط نظر کو قبول نہیں کرتے۔ اگر امریکاکو تحفظات ہیں تو وہ چین سے بات کرے۔ وہ ایک خود مختار ملک ہے۔ پلیز جائیں اور انھیں اپنے خدشات سے آگاہ کریں، تو میں نے اپنے آپ کو واضح کر دیا ہے کہ یہ دوہرا معیار نہیں۔ کشمیر کے لوگ میرے اپنے ہیں تو میں ان کے بارے میں بات کروں گا اور یہ میرا حق ہے۔ بلوچستان میں لاپتاافراد کے بارے میں ایک اور سوال پرمعید یوسف نے کہا کہ ہر کیس کی تحقیقات ہو رہی ہیں، زیادہ تر تعداد میں وہ لوگ ہیں جو دہشت گرد تھے یا جرائم میں ملوث تھے، وہ کہیں لڑائی لڑنے گئے اور بدقسمتی سے مارے گئے۔انھوں نے کہا کہ لاپتا افراد کے کسی کیس میں بھی خلاف ورزی کی صورت میں ذمہ دار ریاست کی طرح اقدامات کیے جائیں گے۔