جماعت اسلامی نے مزاحمت اور جراءت سکھائی

390

سوال :آپ کاسیاست میں کیسے آنا ہوا، یہ سفر کہاں سے شروع ہوا
انجینئر افتخار چودھری: بنیادی طور پر ہمارا گھرانہ مسلم لیگی ہے اور ہزارہ سے تعلق ہے۔ ہمارے بزرگ بعد میں گوجرانوالہ چلے آئے، جہاں والدِ محترم نے اُس وقت ایوب خان دور میں بلدیاتی الیکشن میں حصہ لیا۔ چونکہ تعلق ہزارہ سے تھا، اس لیے والد صاحب ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ میں تھے۔ اپنے علاقے سے تعلق کی وجہ سے صدارتی انتخاب میں بھی ایوب خان کی حمایت کی۔ پیپلزپارٹی تو ہمیں کبھی اچھی نہیں لگی، یوں سمجھیں کہ اس سے نفرت بھی علاقائی تعلق کی وجہ سے ہوئی کہ اس نے ہمارے علاقے کے ایک جرنیل کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ جب اسکول گئے تو وہاں ہمیں ایک استاد ملے، رشید اُن کا نام تھا، وہ جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ اُس زمانے کی بات ہے جب ملک میں نظریاتی سیاست تھی اور سرخ اور سبز کے نعرے لگتے تھے، مائوزے تنگ کے بیجز بھی طلبہ یا سیاسی کارکن اپنے سینوں پر لگایا کرتے تھے۔ اسکول کے زمانے میں ہی ان سے قربت بڑھی تو پھر 1970ء کے عام انتخابات میں گوجرانوالہ میں ہمارے گھر پرجماعت اسلامی کا جھنڈا لگا اور ترازو کے نشان کی وال چاکنگ بھی کی گئی۔ اُس وقت شاید چودھری اسلم صاحب امیدوار تھے۔ والد صاحب سندھ میں ہوا کرتے تھے، لہٰذا انہی دنوں جماعت اسلامی سے قربت ہوئی اور اسلامی جمعیت طلبہ سے بھی تعلق بن گیا۔ اُس وقت ڈاکٹر مشتاق صاحب تھے جمعیت میں۔ سیاسی میدان میں تو جماعت اسلامی کو پذیرائی نہیں ملی تھی تاہم یونیورسٹی میں اُس وقت جاوید ہاشمی کے نام کا طوطی بولتا تھا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے پلیٹ فارم سے جاوید ہاشمی کی مقبولیت دیکھی، اور ہم بہت خوش ہوا کرتے تھے۔ جب طالب علم تھے تو وسائل بھی محدود تھے، تاہم جماعت اسلامی کے دارالمطالعہ باقاعدگی سے جاتے، وہاں کتابیں اور اخبارات پڑھتے۔ اسی طرح سیاسی کارکنوں سے بھی ملاقاتیں ہوتیں۔ یوں ہمارا ایک گروپ بن گیا جس میں قاضی آصف بھی شامل تھے، طاہر شہباز بھی ہمارے گروپ میں شامل تھے، اکرم شیخ بھی انہی وقتوں کی ہمارے ساتھ یادوں میں شامل ہیں۔ سلیم منصور خالد اور مجیب الرحمٰن بٹ بھی بہت عزیز رکھتے تھے۔ ہمیں جمعیت کے ماحول میں بہت عزت ملی۔ بھائی کہنا اور نام پکارتے وقت صاحب کہنا بہت ہی اچھا لگا۔ یوں جمعیت سے وابستگی پختہ ہوتی چلی گئی۔ اسلامی جمعیت طلبہ نے ہمیں بولنا سکھایا، مزاحمت سکھائی، قوت دی اور طاقت بھی دی۔ مطالعے کی عادت سے اچھے مقرر بن گئے اور اعتماد بھی آگیا۔ انٹر کالجیٹ مباحثوں میں شریک ہوتے تھے اور اوّل انعام ہمارا ہی ہوتا۔ طلبہ یونینز کی وجہ سے بہت اچھی لیڈرشپ اس ملک کو ملی ہے۔ لیاقت بلوچ، فرید پراچہ، عارف علوی، احسن اقبال… یہ سب طلبہ یونین سے آئے۔ کوئی منفی کردار بھی بن جاتے ہیں جیسے کہ حسین حقانی۔:جماعت اسلامی سے متاثر ہوئے، جمعیت میں شامل ہوئے، پھر مسلم لیگ(ن) میں چلے گئے، اس کے بعد تحریک انصاف کی طرف رغبت ہوئی، یہ کیوں ہوا؟ آپ تو مزاحمت اور جرأت والی سیاست کے قائل تھے؟
انجینئر افتخار چودھری: کسی کی دل شکنی نہیں چاہتا، میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مولانا مودودیؒ کی نظریاتی تقلید کرنام سب کا فرض ہے ،جماعت اسلامی کے لٹریچر اور جمعیت کی تربیت نے ہمیں زبان دی اور بولنا سکھایا، اور بتایا کہ حق کی بات کرنی ہے اور کبھی سمجھوتا نہیں کرنا۔ میں تو پی ٹی آئی میں رہ کر بھی فواد چودھری اور شیریں مزاری جیسوں کے سامنے حق بات کرتا ہوں۔ عمران خان پاکستان کو واقعی ریاست مدینہ بنانا چاہتے ہیں، ان کی نیت درست ہے۔ ان کے عمل کا نتیجہ کیا نکلتا ہے اور کب نکلتا ہے اس پر بات ہوسکتی ہے، لیکن ان کی نیت بہت صاف ہے۔ ایک بار پارٹی میں کسی نے انہیں کہا کہ یہ جو بات کی جاتی ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا لاالٰہ الااللہ، یہ تو نعرہ ہی نہیں تھا، تو عمران خان نے اس شخص سے کہا کہ پاکستان تو بنا ہی اس نعرے پر ہے، اگر آپ کو کوئی اعتراض ہے تو آپ ہماری پارٹی چھوڑ سکتے ہیں۔ یہ اُس وقت کی بات ہے جب پارٹی ابھی پروان چڑھ رہی تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ریاست مدینہ کے قیام کے لیے عمران خان کو سہارا دینے کی ضرورت ہے۔ جی میں مسلم لیگ(ن) میں تھا اور نوازشریف کے ساتھ رہا، صرف اس لیے کہ انہوں نے ایک آمر پرویزمشرف کے سامنے مزاحمت کی تھی۔ پرویزمشرف ایک ظالم شخص تھا، اس نے طالبان کو بیچا، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکا کے حوالے کیا۔ میں خود اس کی وجہ سے جدہ جیل میں رہا، مگر میرے وہ ساتھی جو اُس وقت سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر اسد درانی کے ساتھ تھے، حق بات نہیں کہہ سکے۔ مجھے یہ شرف حاصل ہے کہ بچپن سے مولانا کی خدمت میں حاضری دینے کا موقع ملا، اسی سبب سے مولانا مودودیؒ مجھے اپنا ننھا دوست کہتے تھے۔ وہ مجھے میرے نام سے جانتے تھے۔ جب بھی ان سے ملاقات کے لیے حاضر ہوا، وہ کہتے تھے کہ گوجرانوالہ سے میرا ننھا دوست مجھ سے ملنے آیا ہے۔
سوال :جماعت اسلامی سے کیا سیکھا؟
انجینئر افتخار چودھری:بہت پرانی بات ہے ایک بارپیپلزپارٹی کے اخبار ’شہاب‘ میں مولانا مودودیؒ کی ایک ایسی تصویر شائع ہوئی جس میں چہرہ مولانا کا تھا اور دھڑ ایک اداکارہ نغمہ کا تھا۔ اُس وقت پیپلزپارٹی کے کارکن وہ اخبار لے کر لہراتے ہوئے جان بوجھ کر ہمارے گھر کے سامنے سے گزرے، ہمارے گھر والوں نے سخت مزاحمت کی بلکہ چھت سے ان پر اینٹیں ماریں اور انہیں بھگایا، اینٹیں مارنے والوں میں میری والدہ اور بہنیں بھی شامل تھیں۔ کبھی موقع ملا تو یہ سب کچھ ایک کتاب کی صورت میں لکھوں گا۔ ایسے بے شمار واقعات ہیں۔ دیکھیے جماعت اسلامی اور جمعیت نے مجھے مزاحمت سکھائی، ہمت اور جرأت عطا کی، باطل سے ٹکرانا سکھایا،،حق کے لیے بات کرنا سکھایا۔ جماعت اسلامی کا اصل منشور صرف جماعت اسلامی کے ذریعے ہی نافذ کیا جاسکتا ہے۔ سیاسی اتحادوں سے اسے نقصان ہوا جماعت اسلامی کی دعوت ہی اصل میں اسے دوسری جماعتوں سے ممتاز کرتی ہے۔1970ء میں جے یو آئی کے پاس صرف دو ہی لیڈر تھے، ایک مولانا مفتی محمود اور دوسرے مولانا غلام غوث ہزاروی، مگر اس کے بعد جے یو آئی نے مدارس میں کام کیا اور مسلک دیوبند کی جماعت بن گئی۔ جماعت اسلامی سیاسی اتحادوں میں جا کر نقصان میں رہی ،میں سمجھتا ہوں کہ جماعت اسلامی نے جس طرح میری تربیت کی وہ میری ماں جیسی تربیت ہے۔ اس نے دین سکھایا، اخلاق سکھایا۔ پی ٹی آئی میں رہ کر ہم بات کرتے ہیں تو یہ جماعت اسلامی کی تربیت کا ہی اثر ہے کہ اس نے ہمیں بولنا سکھایا ہے۔ جب خاکوں کی اشاعت ہوئی تو عمران خان سعودی عرب جانے والے تھے، انہوں نے پریس کانفرنس کی۔ جب پریس کانفرنس ختم ہوئی تو میں نے کہا کہ خان صاحب آپ سعودی عرب جارہے ہیں، خاکوں کا مسئلہ ہے، آپ وہاں جاکر بات کریں، لہٰذا ابھی پریس کانفرنس میں دوبارہ بیٹھیں اور اپنی یہ بات کریں۔ عاطف میاں کی تقرری ہوئی تو مزاحمت کی کہ قادیانی نہیں چاہیے۔ یہ مزاحمت اُس وقت کی جب این اے60 سے میرے لیے ٹکٹ کنفرم ہوچکا تھا، مگر میں نے پروا نہیں کی، اور مزاحمت کی۔ اُس وقت اسد عمر سے کہا کہ آپ کو اس لیے لائے تھے! ہم تو اپنی چال خراب نہیں کر سکتے۔ لہٰذا مزاحمت کی اور فیصلہ منوایا۔ اس طرح عاطف میاں ہٹائے گئے۔
سوال :گویا آپ نے مزاحمت کی اور عاطف میاں ہٹائے گئے؟
انجینئر افتخار چودھری: جی ایسا ہی ہوا، ہم نے مزاحمت کی۔ عمران خان کے سامنے یہ بات اس لیے کی کہ یہ تربیت جماعت اسلامی نے کی تھی کہ حق بات کرنی ہے، باطل سے سمجھوتا نہیں کرنا۔ آپ دیکھیے جماعت اسلامی نے کیسے کیسے لوگ اس ملک کی سیاست کو دیے۔ پروفیسر غفور احمد، ڈاکٹر نذیر شہید، چودھری رحمت الٰہی، محمود اعظم فاروقی سید منور حسن جیسا جرأت مند لیڈر جماعت کی تربیت کی وجہ سے بنا۔ طلبہ یونین پر پابندیوں کے باعث لیڈر شپ نہیں آسکی، اسی لیے اب حلقوں میں نالیوں اور ٹونٹیوں کی سیاست ہوتی ہے۔
سوال :تحریک انصاف کو تین سال ہوگئے ہیں وفاق میں حکومت کرتے ہوئے۔ ان تین سال میں بہت کچھ سامنے آیا، بے تحاشا مہنگائی ہے، کارکن مایوس ہے، عوام بھی پریشان ہیں۔ کیا کبھی پارٹی نے اپنے اندر یہ بحث کی کہ ایسا کیوں ہوا؟
انجینئر افتخار چودھری: ہاں یہ بات ٹھیک ہے، اگر آج الیکشن ہوں تو پارٹی کو سیاسی نقصان ہوگا۔ آج کی بات کرتا ہوں، کل کی نہیں۔ دو سال کے بعد کیا صورت حال ہوگی یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ ویسے پارٹی میں کبھی اس طرح کی بحث نہیں ہوئی۔ دیکھیں، عمران خان ضرور کارکنوں کے ساتھ انٹریکشن کرتے ہیں اور کارکن کے ساتھ رابطے کے لیے مختلف کنونشن ہیں۔ جب بھی یہ ہوئے وہاں عمران خان نے اپنے خطاب سے کارکنوں کو مطمئن کیا۔ عمران خان بہترین موٹی ویٹر ہیں، ویسے یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ جہاں بہت سارے پروگرام اور اجلاس ہوتے ہیں وہاں کارکن زیادہ کنفیوز ہوتے ہیں، بعض اوقات کوئی ذاتی بات ہی لے کر بیٹھ جاتا ہے کہ فلاں نے فلاں وقت میری بات نہیں مانی یا حمایت نہیں کی۔
سوال :تحریک انصاف تو وراثتی جماعت نہیں ہے، عمران خان کے بعد کون ہے جو اسے سنبھال سکتا ہے؟
انجینئر افتخار چودھری: ہاں یہ بات ٹھیک ہے کہ تحریک انصاف میں عمران خان کے بعد کوئی ایسا نہیں جو پارٹی کو متحد رکھ سکے۔
سوال :تحریک انصاف نے اقتدار میں آنے کے بعد پہلے سو دنوں کا پروگرام دیا، اس پر کتنا عمل درآمد ہوسکا؟سوال
انجینئر افتخار چودھری: پہلے سو دنوں کی بات کرلیتے ہیں۔ ہم نے اس دوران جو بات کی، اسے پورا کیا۔ ماحولیات دیکھ لیں، زراعت دیکھ لیں۔ آج کسان خوش ہے۔ تعلیم کے شعبے میں یکساں نصاب لائے، مدارس پر کام کیا۔ جے یو آئی کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ جو کام ہم نہیں کرسکے وہ کام پی ٹی آئی نے کیا ہے۔ انرجی سیکٹر میں کام کیا ہے، بھاشا ڈیم دو سال میں بنادیں گے، آزاد کشمیر کو مالی پیکیج دیا ہے، اس کا فائدہ ہوگا۔ عمران خان جنونیوں کی طرح کام کرتے ہیں، ہاں ایک بات ہے پارٹی نے پرفارم کیا ہے مگر ترجمان نہیں دے سکی جو حکومت کی کامیابیوں کو دکھا سکے۔ وفاق نے صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ دیا، اب صوبے بتائیں کہ کہاں خرچ ہوا؟ سندھ بھی بتائے یہ پیسہ کہاں خرچ ہوا؟ کیوں سندھ کے عوام کی قسمت نہیں بدلی؟ یہ بات پیپلزپارٹی بتائے اور جواب دے۔ آئین کی اٹھارہویں ترمیم کی وجہ سے وفاق کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، وہ صوبوں کو اُن کے وسائل دیتا ہے۔ ہم بہت سارے سیکٹرز میں بہتری لائی ہے۔ انرجی میں بہتری آئی ہے، اب ڈسٹری بیوشن پر توجہ ہے۔ ہمیں کوئی شرمندگی نہیںہے، اور یہ بات بتادوں جہاں ضرورت ہوگی ہم بلڈوز کرکے بھی قانون سازی کریں گے۔
سوال :سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت ہے؟
انجینئر افتخار چودھری: میں آپ کی پوری بات سمجھ گیا ہوں، صرف اتنا کہہ دوں کہ ہم کنعان کے دور میں ہیں، اردوان کے دور میں نہیں رہ رہے۔ جہاں تک پیج کی بات ہے، آپ پیج پر توجہ نہ دیں بلکہ کتاب پر نظر رکھیں۔ مکمل ہم آہنگی ہے، کوئی فکر والی بات نہیں ہے۔
سوال :پنجاب ایک بڑا صوبہ ہے، ایک بڑا سیاسی میدان بھی ہے، یہاں آپ اپنی حکومت سے مطمئن ہیں؟ وزیراعلیٰ کے انتخاب پر بہت لے دے ہوتی رہتی ہے۔
انجینئر افتخار چودھری: وزیراعلیٰ عثمان بزدار کا انتخاب بہترین ہے، انہوں نے پُرفارمنس دکھائی ہے البتہ شور نہیں کیا۔ ہم بزدار سے کیوں ناخوش ہوں؟ ان کے ووٹر غریب ہیں اس لیے انہیں پسند نہ کیا جائے؟ یا ان کے جسم سے پسینہ آتا ہے اس لیے انہیں دور رکھا جائے؟ بزدار کا انتخاب کرکے عمران خان نے لاہور کی سپر میسی کو اکھاڑ پھینکا ہے۔
سوال :خارجہ محاذ پر اہم واقعہ یہ ہوا کہ بھارت نے 5 اگست2019ء کو کشمیر سے متعلق آئینی ترمیم کرلی اور مقبوضہ کشمیر کی قانونی اور آئینی حیثیت ہی تبدیل کردی۔ کیا وہ اسی طرح بڑھتا رہے گا، یا حکومت کچھ کرے گی؟ عمران خان نے کہا تھا کہ وہ کشمیریوں کے وکیل بنیں گے۔
انجینئر افتخار چودھری:کشمیر پر جو کچھ ہورہا ہے یوں سمجھ لیجیے کہ زمینی خدائوں نے کچھ طے کر رکھا ہے، مگر اس کے باوجود اصل فیصلہ کشمیریوں کو ہی کرنا ہے، جنہوں نے تحریک ِمزاحمت جاری رکھی ہوئی ہے۔ اللہ کشمیریوں کے ساتھ ہے اور وہ دیکھ رہا ہے۔ کشمیریوں کو بھی افغانوں کی طرح کام کرنا چاہیے۔ جس طرح انہوں نے جدوجہد کی اور امریکا اور نیٹو کو نکال باہر کیا، کشمیری بھی بھارت کو نکال باہر کریں۔