سوڈان میں 30فیصد شہریوں کے مفلس ہونے کا خدشہ

302

خرطوم (انٹرنیشنل ڈیسک) اقوام متحدہ نے اپنی رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ سوڈان کی 30 فی صد آبادی کو آیندہ سال انسانی امداد کی ضرورت ہوگی ۔ رپورٹ میں سوڈان کے معاشی بحران ، کورونا وبا، سیلاب اور بیماریوں کو اس صورت حال کا ذمے دار قراردیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک سوڈان اس وقت لاکھوں پناہ گزینوں اور اندرونی طور پر بے گھر افراد کی میزبانی بھی کررہاہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی امور کے رابطہ دفتر (او سی ایچ اے) نے کہا ہے کہ سوڈان کی کل 4کروڑ 79 لاکھ آبادی میں سے ایک کروڑ43 لاکھ افراد کو اگلے سال انسانی امداد کی ضرورت ہوگی۔ ان میں شہری اور پناہ گزین دونوں شامل ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رواں سال کے مقابلے میں یہ تعداد 8لاکھ زیادہ ہے اور 2022ء میں سوڈان میں ضرورت مند افراد کی تعداد گزشتہ ایک دہائی میں سب سے زیادہ ہوگی۔ اس مفلوک الحال آبادی میں نصف سے زیادہ خواتین اور بچے ہیں۔ سوڈان میں کئی دہائیوں کے تنازعات کے بعد 30لاکھ افراداندرون ملک دربدرہیں اور پناہ گزین کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ ان میں مغربی علاقے دارفر میں خانہ جنگی کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے افراد بھی شامل ہیں ، جہاں اقوام متحدہ کے مطابق 2003 ء سے شروع ہونے والی لڑائی میں 3لاکھ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ ملک میں 12 لاکھ پناہ گزین یا سیاسی پناہ کی تلاش میں لوگ بھی موجود ہیں۔ ان میں سے 68 فیصد کا تعلق جنوبی سوڈان سے ہے ، جو2011ء میں ایک ریفرینڈم کے نتیجے میں سوڈان سے الگ خودمختار ملک بن گیا تھا۔ سوڈان اس وقت سیاسی عدم استحکام اور ہنگامہ آرائی سے دوچارہے۔ اپریل 2019 ء میں سابق صدرعمرالبشیر کی معزولی کے بعد سے ملک میں ابتری کا دور دورہ ہے اور ملک میں بڑے شہروں میں فوج کے اقتدار پر قبضے کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔سوڈانی فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح البرہان نے 25 اکتوبرکواقتدار پر قبضہ کرلیا تھا اور وزیراعظم عبداللہ حمدوک کو حراست میں لے لیا تھا ، لیکن اس اقدام کی بین الاقوامی مذمت اور بڑے پیمانے پراحتجاجی مظاہروں کے بعد 21 نومبر کوایک معاہدے کے تحت انہوں نے وزیراعظم کو ان کے عہدے پر بحال کر دیا تھا۔ سوڈان کو حال ہی میں افراط زر کی بڑھتی ہوئی شرح کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے اور اس نے سخت معاشی اصلاحات کا آغازکیا ہے۔ان کے تحت پٹرول اور ڈیزل پرسبسڈی ختم کردی گئی ہے۔