اسرائیل کے نئے خطرناک پینترے

747

اسرائیل نے خلیج کی مملکتوں سے اپنے تعلقات استوار کرنے کے بعد اب شمالی افریقا کا رخ کر لیا ہے اور پہل اس کی مراکش سے کی ہے۔ مراکش پہلا عرب ملک ہے جس نے اسرائیل کے ساتھ کھلم کھل فوجی معاہدہ کیا ہے، ویسے اس سے پہلے مصر، اردن اور چند دوسرے عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ خفیہ فوجی معاہدے کر چکے ہیں۔ یہ بات اہم ہے کہ اسرائیل اور مراکش کے درمیان تعاون کا آغاز 1960 میں ہوا تھا جب مراکش میں آباد یہودیوں کی اسرائیل منتقلی کے بارے میں سمجھوتا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ اسرائیل نے مراکش میں مغربی صحارا کی تحریک کے خلاف مراکش کی مدد کی تھی۔ حقیقت میں اسرائیل اور مراکش کے درمیان سفارتی تعلقات کا آغاز 1995 میں ہوا اور 2000 میں متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ اسرائیل کے سفارتی تعلقات استوار ہوئے اور 2020 کے آخر میں اسرائیل اور مراکش کے درمیان کئی سیاسی معاہدے طے پائے۔ اور اسی کے ساتھ اسرائیل اور مراکش کے درمیان فوجی معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ ان معاہدوں کے پس پشت اسرائیل کا اصل مقصد ایران کے خلاف فوجی محاذ مضبوط بنانا ہے۔
عین اس وقت جب کہ ایران کے جوہری معاہدوں کی تجدید کے بارے میں مذاکرات شروع ہوئے ہیں اسرائیل نے ایران کے خلاف محاذ کھول دیا ہے اور ایک طرف ایران پر حملہ کے لیے بڑے پیمانے پر اسلحہ خریدنا شروع کر دیا ہے۔ اس مقصد کے لیے اسرائیل نے امریکا کی لاک ہیڈ کمپنی سے دو ارب چالیس کروڑ ڈالر مالیت کے ہیلی کاپٹر کی خریداری کا سودا کیا ہے۔ اسی کے ساتھ اسرائیل کی طرف سے امریکا پر زور دیا جا رہا ہے کہ ایران کے خلاف فی الفور فوجی کارروائی کی جائے۔ کہا جاتا ہے اسرائیل نے ایران کے خلاف فوجی کارروائی کے بارے میں ان عرب ممالک کو اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کی ہے جن سے اس نے حال میں سفارتی تعلقات استوار کیے ہیں، ان میں متحدہ عرب امارات اور بحرین نمایاں ہیں۔
اسرائیل کی رائے میں اس وقت ایران کے خلاف فوجی کارروائی کے امکانات روشن ہیں۔ غرض یہ اسرائیل کے نئے پینترے ہیں جن کے دو بنیادی مقاصد ہیں اول دنیا کی رائے فلسطین پر ڈھائے جانے والے اسرائیلی مظالم سے ہٹانا ہے۔ اور دوم ایران کے خلاف فوجی معرکہ آرائی بھڑکانا ہے۔ بلا شبہ اسرائیل کے یہ پینترے کورونا کی وبا سے بھی زیادہ خطرناک ہیں جن سے پوری دنیا کا امن تباہ ہو سکتا ہے۔