سیالکوٹ میں دامنِ انسانیت تارتار

394

سیالکوٹ میں ایک بے قابو ہجوم نے ایک بار پھر شرفِ انسانیت کی قبا اتار کر بھیڑیے کی کھال پہن لی۔ افسوس کا مقام ہے اس کھال کو اسلامی جذبات کا جامہ پہنایا گیا اور یوں ایک شخص کی جان نہایت درندگی سے لی گئی۔ ہمارے اندر کا قومی وحشی پوری طرح سیالکوٹ میں رقص کناں رہا۔ ایک شخص کے جسم کو ٹھڈوں اور گھونسوں کے آگے اور لاٹھیوں کے نیچے رکھ کر اور پھر بے جان جسم کو تیل اور دیا سلائی دکھا کر اس سے بلند ہونے والے شعلوں پر فاتحانہ انداز اپنانا ہماری قومی خوئے وحشت کو عیاں کر رہا تھا۔ سری لنکا کا ایک باشندہ جو زمانے بھر کے خدشات اور خطرات کو جھٹک کر پاکستان میں نوکری کرنے آیا تھا اور ایک فیکٹری میں منیجرکے طور پر کام کرتا تھا۔ فیکٹری میں لگے اسٹکر اتارنے میں کسی بے احتیاطی کا شکار ہوا اور یوں بات کا بتنگڑ بنادیا گیا۔ ایک شخص کی خوئے فساد اور ستم بیدار ہوئی رگِ فتنہ پھڑک اُٹھی جسے اس نے اسلام سے محبت کے ساتھ جوڑا اور یوں ایک یک طرفہ مقدمہ گھڑا گیا۔ فسادیوں کی زنجیر نمت چلا گئی، ہجوم اکٹھا ہوگیا پھر جنون اور وحشت عقل پر غالب آگئی۔ ہجوم میں کسی کو ملزم کا جرم پوچھنے اور جواز مانگنے کی فرصت کہاں ہوتی ہے۔ وہاں جذبات کا پیمانہ چھلکنے کو ایک نعرہ درکار ہوتا ہے، آگ بھڑکانے کو فقط ایک دیا سلائی درکار ہوتی ہے اور پھر بپھرے ہوئے لوگ آئو دیکھتے ہیں نہ تائو اور ہدف پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔
سیالکوٹ کی سرزمین پر بھارت کے مناظر دیکھنے کو ملے جہاں کسی کی جیب سے گائے کا گوشت ہونے کا الزام عائد کرکے کسی مسلمان راہگیر کو اسی انداز سے لاتوں اور ٹھڈوں کے آگے دھر لیا جاتا ہے اور بات ڈنڈوں اور پتھروں تک پہنچ جاتی ہے۔ جس کے بعد اس ہدف کو مارمار کر جان سے گزار دیا جاتا ہے۔ ہجوم جے شری رام کے نعرے لگا کر یہ سمجھتا ہے کہ اس نے اپنے مذہب کی بہت بڑی خدمت کی ہے۔ سیالکوٹ میں ہجوم کے تشدد کا یہی رویہ رخ اور انداز دیکھا گیا۔
سری لنکن شہری کا جرم کیا تھا۔ اس کی جو کہانی اس معرکے ایک ’’فاتح‘‘ نے خود سنائی جو اب سلاخوں کے پیچھے ہے وہ اس الزام کی صحت اور جرم کی نوعیت پر گہری تحقیق اور سوال در سوال کا متقاضی ہے۔ ایک سری لنکن شہری نے جو مسلمان بھی نہیں اور اردو سے زیادہ واقفیت بھی نہیں رکھتا بے دھیانی اور لاعلمی میں بھی اس فعل کا مرتکب ہو سکتا ہے۔ فرض کریں اگر اس شخص پر جو یہاں رزق روزگار کی خاطر آیا تھا اپنے مذہب کو غالب کرنے اور غالب اکثریت کے حامل ملک ومعاشرے کے مذہب کی تحقیر کرنے کا شوق چرایا ہی جسے ذہن قبول کرنے کو تیار نہیں تب بھی قانون کو یوں ہاتھ میں لینے کی اجازت کیوں کر دی جا سکتی ہے۔ پاکستان ایک قانون اور آئین کا حامل ملک ہے۔ یہاں صحت جرم کا تعین کرنے اور انصاف دینے اور تاثر کو حقیقت سے الگ کرنے کا پورا نظام قائم ہے۔ ایسے معاشرے میں بات بے بات قانون ہاتھ میں لینا ملک ومعاشرے کو وحشت اور انارکی کی نذر کرنے کی منظم کوشش ہے۔ حد تو یہ کہ ایک شخص کی لاش جل رہی تھی اور ہجوم فاتحانہ انداز میں ان شعلوں کے ساتھ سلیفیاں بنا رہا تھا۔
برسوں پہلے اسی علاقے میں ایک حکیم عطائی اور عیسائی کے چکر میں مار دیا گیا تھا۔ ایک نیک اور پرہیز گار شخص کی کسی سے ان بن ہوگئی تھی پھر ایک مقدمہ گھڑا گیا کہ ایک عطائی نے توہین مذہب کی ہے لوگ عطائی کو عیسائی سمجھ کر چل دوڑے اور حکیم کو مارمار کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس کے بعد بھی ہجوم کے ہاتھوں انسانوں کی اس سفاکانہ موت کے واقعات بڑھتے چلے گئے۔ سیالکوٹ ہی میں دو بھائیوں کی بہیمانہ تشدد سے موت نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا تھا مگر بعد میں کچھ پتا نہ چلا کہ ان قاتلوں کے ساتھ کیا ہوا اور کہانی نے کیا رخ اختیار کیا۔ انصاف وقت کی بھول بھلیوں میں کہیں کھو کر رہ گیا تھا۔
تھوڑا ہی عرصہ گزرا ہے جب نیوزی لینڈ کی ٹیم کرکٹ کھیلے بغیر امن وامان اور دھمکیوں کا عذر تراش کر چلی گئی تھی اور ہم نے اسے اپنے بدنامی قرار دیا تھا۔ دنیا کو یقین دلایا تھا کہ پاکستان امن وامان کے حوالے سے آئیڈیل جگہ ہے۔ تھوڑا ہی عرصہ گزرا کہ یہ واقعہ ہوگیا۔ جہاں ایک ہجوم ایک تنہا شخص کو بھنبھوڑتا رہا اور انتظامیہ پولیس یا کوئی عام شخص اس ظلم کو روکنے کے لیے دستیاب نہیں تھا۔ پرامن مظاہرین پر لاٹھی چارج کرنے کے لیے ہمہ وقت دستیاب اور تیار پولیس سیالکوٹ جیسے شہر میں نجانے گھنٹوں کہاں غائب رہی؟ جلتی ہوئی لاش کے قریب پولیس اہلکاروں کا سراغ ضرور ملتا ہے اور یہاں بھی وہ لاتعلقی کا رویہ اپنائے لوگوں کو سیلفیاں لیتے ہوئے دیکھ رہی ہے۔ سسٹم کا دیوالیہ پن اس کے سوا اور کیا ہوتا ہے؟۔ اب بھارت سمیت دنیا بھر کا میڈیا اس واقعے کو نمک مرچ لگا کر پیش کر رہا ہے تو یہ موقع کس نے دیا؟۔ بھارت کے میجر گورو آریہ کی وہ بات بہت اہم ہے کہ پاکستان میں مذہب کے نام پر آگ لگانا بہت آسان ہے۔ یہاں ہر شخص بزعم خود سچا اور اصلی مسلمان بنا پھرتا ہے اپنے فرقے کو حق سچ اور دوسرے کو باطل سمجھتا ہے اس مائنڈ سیٹ نے فساد ی سوچ کو جنم دیا ہے۔ اس سوچ کا قلع قمع کرنا علما اور حکومت وریاست کی مشترکہ ذمے داری ہے۔