پی ڈی ایم پھر غلط راہ پر

500

پی ڈی ایم نے اپنے اجلاس میں فیصلہ کیا ہے کہ ملک میں مہنگائی کی لہر کے خلاف 23 مارچ کو اسلام آباد میں مہنگائی مارچ ہوگا۔ پی ڈی ایم نے استعفوں کا فیصلہ پھر موخر کردیا۔ بظاہر یہ ایک معمولی سی خبر ہے لیکن پی ڈی ایم اس وقت اپنی پوری کوشش میں ہے کہ کسی طرح حکومت کو گرا دیا جائے یا قبل ازوقت الیکشن کرادیے جائیں۔ انہوں نے مہنگائی مارچ کے لیے 23 مارچ کی تاریخ دے دی۔ چار ماہ بعد ملک میں کیا حالات ہوں گے، 23 مارچ کی اہمیت کے اعتبار سے اس دن کو لوگ منائیں گے یاپی ڈی ایم کے مارچ میں شریک ہوں گے۔ حکومت نے اس حوالے سے پروپیگنڈا بھی شروع کردیا ہے کہ اپوزیشن کو پاکستان کے اہم قومی دن کا خیال نہیں۔ دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ مشیر خزانہ شوکت ترین بھی یہ اعلان کرچکے ہیں کہ چار ماہ بعد مہنگائی کم ہوجائے گی، روپیہ کی شرح بہتر ہوجائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی جو قیمتیں آج کم ہوئی ہیں چار ماہ بعد ان کے اثرات پاکستان پر پڑیں گے اور حکومت اس وقت بڑے فخر سے تیل کی قیمتیں کم کرنے کا اعلان کررہی ہوگی۔ چوں کہ سیاسی محاذ گرم ہوگا اس لیے حکومت مارچ کے شروع میں پٹرول سستا کردے گی۔ پٹرول سستا ہونے کے نتیجے میں مہنگائی میں بھی یقینا کمی آئے گی اور حکومت اپنی بغلیں بجائے گی۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم کیا کرے گی۔ پی ڈی ایم کی قیادت نے اپنے فیصلوں کے وقت ان پہلوئوں پر غور کیا تھا یا نہیں۔ کیا پی ڈی ایم میں کچھ ایسے عناصر ہیں جو اس کو ناکام بنانا چاہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پی ڈی ایم کی مہم ایک بار پھر ناکامی کا منہ دیکھے گی۔ ویسے اس کی کامیابی سے عوام کو کسی قسم کا فائدہ پہنچنے کی کوئی امید نہیں، کیوں کہ جس طرح پی ٹی آئی ناکام ہوگئی اسی طرح پی ڈی ایم بھی ناکام جماعتوں کا ٹولہ ہے۔ اور پی ٹی آئی تو تمام جماعتوں کے آزمائے ہوئے لوگوں پر مشتمل ٹولہ ہے۔ پاکستان کی تمام خرابیوں اور معیشت کی تباہی کے ذمہ دار یہی مسلم لیگ، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی ہیں۔ ق لیگ، ایم کیو ایم اور دیگر چھوٹی جماعتیں بھی ہمیشہ ان پارٹیوں کے ساتھ حکومت میں رہی ہیں۔ پی ڈی ایم نے ایک بار پھر پارلیمنٹ سے استعفوں کے فیصلے کو موخر کردیا ہے۔ پارلیمنٹ سے استعفوں کا مطلب حکومت پر دبائو بھی ہے اور پی ڈی ایم کی قوت کا خاتمہ بھی، یہ بات پی ڈی ایم بھی جانتی ہے کہ حکومتیں کہاں سے بدلتی اور بنتی ہیں وہ پارلیمنٹ کی اکثریت اور اقلیت سے نہیں بلکہ کسی اور جگہ بنائی جاتی ہیں۔ اسی طرح ڈی چوک اور اسمبلی کے سامنے 125دن کا دھرنا بھی حکومت بدلنے کا کام نہیں کرتا۔ لہٰذا پی ڈی ایم استعفوں سے ڈرانا بھی چھوڑدے گی۔ بلکہ جتنی تاخیر ہوگئی ہے اس کی روشنی میں تو اب استعفے پی ڈی ایم کی سیاست کو ختم کردیں گے۔ پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی دونوں عوام کا نام لیتے ہیں دونوں کا دعویٰ ہے کہ ہم عوام کے لیے زیادہ مخلص ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام گروپ اپنی تمام ناکامیوں کا اعتراف کرکے عوام کے سامنے شرمندگی کا اعلان کریں اور ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے بے دخل کرنے کے طریقوں پر بات کریں۔ اور یہ کام تینوں میں سے کوئی نہیں کرے گا۔ کیونکہ یہ تینوں ہر کام کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھتے ہیں۔ عوام اس معاملے کو سمجھ رہے ہیں لیکن ان کی تربیت ایسی نہیں ہے کہ وہ کسی ایک مخلص پارٹی یا رہنما کی قیادت پر متفق ہوجائیں اور ملک کا سیاسی نظام آئین کے مطابق چلانے کی کوئی قرارداد تیار کرکے اس پر خود بھی عمل کریں اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی اس پر عمل کا پابند کریں عدلیہ سے اس کے تحفظ کی ضمانت لیں۔ جب تک پی ڈی ایم ، پی ٹی آئی اور مختلف ادوار میں حکومت کا حصہ رہنے والی پارٹیاں درست راستہ اختیار نہیں کریں گی ملک چوہے بلی کے کھیل میں الجھا رہے گا۔ پی ڈی ایم اور اس کی اتحادی پارٹیوں نے پورے تین برس سے ملک کے نظام کو مفلوج کر رکھا ہے اور اس کام میں پی ٹی آئی بھی ان کی اتحادی ہے کیونکہ پی ڈی ایم حکومت کو نااہل کہتی ہے اور حکومت نواز شریف اور زرداری چور کے نعرے لگاتی رہتی ہے۔ تین برس سے یہ جماعتیں چور چور کا شور مچا رہی ہیں۔ اگر عمران خان درست کہہ رہے ہیں تو پی ڈی ایم کی پوری جماعتیں مجرم ہیں اور پی ڈی ایم درست الزام لگا رہی ہے تو پی ٹی آئی مجرم ہے اور پی ٹی آئی مجرم ہے تو یہ سب مجموعی طور پر مجرم ہیں کیونکہ پی ٹی آئی میں ان تمام جماعتوں کے لوگ شامل ہیں جن کو مجرم قرار دیا جاتا ہے۔ اب قوم کے صبر کا امتحان بہت ہو چکا جو لوگ بھی معاملات پر کنٹرول رکھتے ہیں وہ ملک کی قیمت پر اپنا گھنائونا کھیل بند کر دیں۔ ملک ہے تو ان کا وجود ہے۔ دنیا بہت آگے جا چکی یہاں اسی قسم کے کھیل چل رہے ہیں۔