سندھ میں بلدیات کے ساتھ تباہ کن کھیل

307

حکومت سندھ نے اسمبلی سے بلدیاتی قوانین میں تبدیلی کا بل منظور کرا لیا ہے اس کے خلاف جماعت اسلامی نے وزیراعلیٰ سندھ کو قانونی نوٹس بھی دیا ہے اور احتجاج کا اعلان بھی کر دیا ہے دیگر اپوزیشن جماعتوں نے بھی اس کے خلاف احتجاج اور اسے مسترد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وفاق کے نمائندے گورنر سندھ نے بل مسترد کرکے حکومت کو واپس کر دیا ہے۔ اس پر اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ میں شور مچا ہوا ہے کہ پی ٹی آئی نے بل مسترد کر دیا۔ یہ بل اب مسترد ہو نہیں سکتا۔ یہ ممکن ہے کہ اس میں کچھ ترامیم کر لی جائیں۔ اگر حکومت بل کو جوں کا توں دوبارہ منظور کرکے گورنر کو بھیج دے تو وہ اسے تسلیم کرے یا مسترد۔ 14 دن میں وہ ازخود نافذ قرار پائے گا۔ جماعت اسلامی حکومت کے عزائم سے واقف تھی اس لیے وہ پہلے ہی بلدیاتی قوانین میں اصلاح کے لیے تحریک چلا رہی ہے جب سے بل منظور کرایا گیا ہے جماعت اسلامی نے اپنی جدوجہد مزید تیز کر دی ہے۔ تماشا یہ ہے کہ جن پارٹیوں نے ملک کے سب سے بڑے شہر کی بلدیہ کو تباہ کیا ان میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم شامل ہیں۔ ایم کیو ایم 35 برس اس شہر اور حیدرآباد پر قابض رہی جس نے سندھ کے دیگر باشندوں میں احساس محرومی پیدا کیا اور اس کے نتیجے میںایک نئی سوچ پروان چڑھی جسے پیپلز پارٹی کی حکومت نے باقاعدہ مہم کے ذریعے قانون اور اسمبلی میں اکثریت کے بل پر کراچی و حیدرآباد کے شہریوں کے حقوق کے ڈاکے کے لیے استعمال کیا۔ شہری حکومت کے درجنوں محکمے حکومت سندھ گزشتہ برسوں میں براہ راست اپنے کنٹرول میں لے چکی ہے اس قانون کے ذریعے مزید تباہی آنے والی ہے۔ کراچی و حیدرآباد کے شہری روزگار سے محروم ہو جائیں گے ظلم تو یہ ہے کہ کراچی اور حیدرآباد کی بلدیات کو تباہ کرنے والی ایم کیو ایم بھی اصلاح کرنے نکل کھڑی ہوئی ہے اسے تو کراچی کو لوٹنے کا حساب دینا چاہیے۔ چائنا کٹنگ، پارکوں پر قبضے، بجٹ میں گڑبڑ یہ سارے کام اس کے دور میں ہوئے۔ یہی دیکھتے ہوئے سندھ حکومت نے تمام اداروں کو براہ راست صوبے کے کنٹرول میں لے لیا کیونکہ وہ کسی طور بھی ان شہروں سے منتخب ہو کر نہیں آسکتے تھے۔ اب جبکہ بلدیاتی انتخابات کا وقت قریب آرہا ہے یہ سب جماعتیں نکل کھڑی ہوئی ہیں۔ وزیراعلیٰ نے اپوزیشن سے مذاکرات کے لیے رضامندی کی بات کی ہے۔ مذاکرات نہیں قوانین کو آئین کے مطابق بنانے کی ضرورت ہے۔