علامہ اقبال ایک نابغہ روزگار شخصیت

466

اقبال کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل میں بہت سے عناصر کارفرما رہے ہے ان میں سرفہرست وہ لوگ ہیں جو علامہ اقبال سے پہلے اپنے فکر و فلسفے اور خیالات و افکار سے پوری دنیا کو متاثر کر چکے تھے دوسرے ایسے لوگ بھی موجود تھے جنہوں نے ہر وقت فکر انسانی کو متاثر کیا علامہ قبال نا صرف اسلامی فکر و فلسفے سے متاثر ہوئے بلکہ مغربی فکر کے اداروں سے بھی بے نیاز نہیں رہے انہوں نے ہر حکمت کو اپنا گمشدہ گوہر تصور کرکے کے اسے حاصل کرنے کی کوشش کی ، اس لیے بھی کہ اقبال کے ’’فلسفے‘‘ میں قطعیت نام کی کوئی چیز نہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اقبال نے صرف مشرق اور مغرب کی فکر و فلسفے سے اکتساب فیض کیا بلکہ حقیقت اس کے برعکس ہے اگر ہم اقبال کی نظم اور نثر کا گہری نظر سے مطالعہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ اقبال فلسفہ و فکر کے اعلیٰ درجے پر فائز تھے اور انہوں نے بہت سے مقامات پر مشرق و مغرب کے مفکرین سے اختلاف کیا بلکہ ان کے نظریات کو رد بھی کیا۔
علامہ اقبال کو مسلمانوں کے صرف جاہ و منزلت سے محروم ہو جانے کا قلق نہیں تھا بلکہ مطالعے نے ان کو یہ بھی بتایا تھا کہ مسلمانوں نے علم کی مسند بھی مغرب کے لیے خالی کردی تھی اور مغرب نے اس پر فلسفہ جدید اور سائنس کی شاندار عمارت تعمیر کر لی ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو یہ فکر دی کہ اگر تم دوبارہ دنیا کی امامت کے منصب پر فائز ہونا چاہتے ہو تو پھر تمہیں اسی طرح صداقت شجاعت اور عدالت کا سبق دہرانا ہوگا۔
علامہ اقبال کی نظر میں اسلامی قومیت کا ویژن یہ ہے کہ قومیت کا اسلامی تصور دیگر اقوام کے تصور سے بالکل مختلف ہے ہماری قومیت کا اصول نہ اشتراک زبان ہے نہ اشتراک وطن اور نہ اشتراک اغراض اقتصادی۔ بلکہ ہم سب اس برادری کا حصہ ہیں جو نبی پاکؐ نے تعمیر فرمائی ہے اقبال فرماتے ہیں ؎
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ
علامہ اقبال کی فکر اور رہنمائی قیام پاکستان کی اساس ہے جس کا اعتراف بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی کیا تھا مگر افسوس کہ نسل ِ نو کو کبھی بھی ایک مربوط اور منظم انداز سے فکر اقبال سے روشناس کروانے کی کوشش نہیں کی گئی آج جبکہ ہمیں طرح طرح کے چیلنجوں کا سامنا ہے اس کی وجہ سے اس بات کا تقاضا اور بھی بڑھ گیا ہے کہ ہم اقبال کے تذکرہ کو رسمی حد تک محدود نہ رکھیں بلکہ فکر اقبال کو اپنے قومی نظام تعلیم و تربیت کا حصہ بنائیں اور ان کے خیالات کی روشنی اور جدید انکشافات و اکتسابات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کے مشن کو آگے بڑھائیں مسلمانوں پر گزرتے ہوئے موجودہ حالات سے چشم پوشی اختیار کرنا امت مسلمہ سے غداری کے مترادف ہوگا۔