آئیں ماضی سے سبق حاصل کریں

359

کون ہے جو اس وقت اس بات کو پورے یقین کے ساتھ ثابت کر سکے کہ آج ہم جن پریشانیوں میں ہیں اس کے ذمے دار ہم نہیں ہیں۔ آج ملک جس بحران میں مبتلا ہے، آج جو مہنگائی کا طوفان ہے۔ ملک معاشی بحران کا شکار، جمہوریت کٹ پتلی، عدالتی نظام مشکوک، دفاعی ریاستی ادارے مشکوک۔ ایسا صرف موجودہ دور حکومت میں ہورہا ہے۔ ہمارا دور اقتدار ایک آئیڈیل دور تھا ملک ترقی کی جانب گامزن تھا ہم کسی کے مقروض نہیں تھے ملکی معیشت آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی تھی غربت کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا تھا ہر ادارہ آزاد حیثیت میں آئین میں رہتے ہوئے اپنے فرائض کو انجام دے رہا تھا کیا ہم نے ماضی کی حکومتوں کے دور میں ایسا کچھ محسوس کیا تھا۔
مان لیا کہ موجودہ حکومت اپنے وعدے دعوے سہانے خواب پورے کرنے میں ہر طرح سے ناکام رہی ہے اب ایک سال کا وقت بچا ہے جس میں حکومت یقینا نچلی سطح کے معاملات کو حل کرنے کی کوشش کر سکتی ہے کسی بھی حکومت کا پانچواں سال الیکشن کا سال سمجھا جاتا ہے اب ہر جانب سے اگلے عام انتخابات کی بھاگ دوڑ دیکھی جائے گی، ہماری نظر میں موجودہ اپوزیشن بھی اب حکومت کو گرانے میں سنجیدہ نہیں ہے اپوزیشن کے جلسے، پریس کانفرنس، الزام تراشیاں، بیان بازی سب اگلے الیکشن کی تیاری ہے کیوں کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی دوریاں حکومت کے لیے مفید ثابت ہوئی ہیں اور یہ بات طے ہے کہ پیپلزپارٹی کسی طور خان صاحب کے اقتدار کے لیے خطرہ نہیں جبکہ ن لیگ مولانا کے ساتھ ہونے کے باوجود بھی تنہا ہے اور یقینا حکومت کے لیے کوئی خطرہ ثابت نہیں ہوگی کیوں کہ اس وقت مریم صفدر کی غیر سنجیدہ سیاست نے ایک بار پھر ن لیگ کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے۔
جہاں یہ مسائل زدہ عوام حکومت کی نااہلی سے تنگ ہے وہیں عوام اپوزیشن کی کارکردگی سے زیادہ مایوس ہیں کیوں کہ اپوزیشن کے منتخب نمائندے تو شاید مسائل کا حل چاہتے ہوں مگر مولانا اور مریم صفدر عوامی مسائل اور مہنگائی کی آڑ میں اپنی کرپشن پر ریلیف کی خواہش میں حکومت، عدالتوں، دفاعی اداروں کی تضحیک میں اتنا آگے نکل چکے ہیں کہ شاید اگر موثر مضبوط انصاف پر مبنی نظام حرکت میں آیا تو یقینا ان پر سیاست کے دروازے بند کر دیے جائیں گے۔ جس طرح پاکستان کے اداروں کو متنازع بنا کر پیش کیا جارہا ہے وہ کسی صورت ملک کے لیے درست نہیں۔ یقینا ہر ادارے میں خامیاں ہوں گی مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ریاستی اداروں کو سیاسی مفاد میں استعمال کرتے ہوئے ان کی جگ ہنسائی کی جائے۔
2017 میں شریف فیملی کو سزائیں صرف اس بنیاد پر دی گئی کہ یہ فیملی اپنی بے گناہی میں کوئی ٹھوس شواہد پیش کرنے میں ناکام رہی۔ تین سال گزر جانے کے باوجود شریف فیملی کوئی سبق نہیں سیکھ پائی۔ ن لیگ کا حکومت اور اداروں پر ہر وار ناکام رہا کبھی اپنی بے گناہی میں جعلی ویڈیو کے ذریعے ضمانتیں پھر جعلی میڈیکل رپورٹ کی بنیاد پر بیرون ملک روانگی یہاں تک کہ اس ملک کے تین بار وزیر اعظم رہنا والا شخص عدالتوں سے اشتہاری قرار دے دیا گیا مگر پھر بھی سبق نہ سیکھا اور کچھ وقت کی خاموشی کے بعد پھر ایک جعلی ویڈیو کے ذریعے بچنے کی ناکام کوشش پھر اداروں پر الزامات اور پھر نکلا کیا مریم صفدر کی اپنی ویڈیو جس کے ذریعے وہ میڈیا کو اپنی غلامی پر مامور کرنے کی ہدایات دے رہی ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں میں موجود مفاد پرست عناصر کو اپنے ماضی سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے یہ وطن لاکھوں قربانیوں کے بعد آزاد کیا گیا صرف اس لیے کہ ہم غلامی کو دفن کر کے ایک معزز قوم کے طور پر ترقی وخوشحالی کی جانب گامزن ہوکر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہوسکیں، دنیا ہماری اور ہمارے سیاسی عدالتی دفاعی نظام کی پاکیزگی کی مثال دے سکے۔ مگر افسوس آئین شکنی کر کے چند لوگوں کو کچھ وقت کے لیے فائدہ ضرور حاصل ہوا مگر نقصان صرف اس ملک و قوم اور اس کے منافع بخش اداروں کو اُٹھانا پڑ رہا ہے اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنے غلطیوں سے سبق سیکھ کر قوم کے سامنے ایک بہتر مثال قائم کریں جو قومیں اپنے ماضی سے سبق حاصل نہیں کرتیں ناکامی اُن کا مقدار بن جاتی ہے لیڈر کی قربانیاں قوم کا فخر ہوتی ہیں ان کا اپنے ووٹر اپنی جماعت کو مشکل وقت میں چھوڑ پر بیرون ملک فرار ہونا ان کی اپنی جماعت ملک و قوم کے لیے شرمندگی کا باعث بنتا ہے لہٰذا ہم سب کو چاہیے اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کریں۔