تربیت پر عدم توجہ اور مادر پدر آزادی منشیات کے رحجان میں اضافے کا سبب ہے

733

کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) نوجوانوں میں منشیات کے استعمال کے رحجان میں اضافے کی بنیادی وجہ ماد رپدر آزا د معاشرے کا پروان چڑھنا ہے‘ پہلے زمانے میں تعلیم کے ساتھ تربیت پر بھی زور دیا جاتا تھا‘ گھروں میں بزرگ اور کلاس رومز میں اساتذہ بچّوں کی اخلاقی تربیت پر بہت دھیان دیتے تھے‘ موجودہ دور میں منشیات کی فروخت روایتی نہیں بلکہ انتہائی جدید انداز میں سوشل میڈیا کے ذریعے کی جا رہی ہے‘ منشیات فروش واٹس ایپ اور فیس بک سمیت سوشل میڈیا کی دیگر ایپس استعمال کر رہے ہیں‘ واٹس ایپ پر ایک میسج 100 لوگوں تک بھی گیا تو ان میں 10 سے 15 نوجوان ان کے شکنجے میں پھنس ہی جاتے ہیں‘ ہمارے حکمران نوجوانوں کے سر پر منڈلاتے “ہائیڈروجن بم سے بھی خطرناک ” منشیات مافیا کی طرف سے آنکھیں بند کیے ہیں۔ان خیالات کا اظہار ویمن اسلامک لائرز فورم کی چیئرپرسن طلعت یاسمین ایڈووکیٹ، معروف لائف کونسلر و موٹیویشنل اسپیکر، یوتھ ایکسپرٹ اور گائناکالوجسٹ ڈاکٹر شعوانہ مفتی اور دی ویمن لائرز ایسوسی ایشن کی سی ای او سینئر بیرسٹر زارا سحر ویانی نے جسارت کی جانب سے پوچھے گئے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’نوجوانوں میں منشیات کے استعمال کا رحجان کیوں بڑھ رہا ہے؟‘‘طلعت یاسمین ایڈووکیٹ نے کہا کہ منشیات ایک ایسا لفظ ہے جس کے زبان پر آتے ہی اس کی خرابیاں نگاہوں کے سامنے گھومنے لگتی ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ ایک صالح و صحت مند معاشرہ اسے ہرگز قبول نہیں کرتا‘ اس وقت نوجوان نسل جس بری طرح سے نشے کی لت میں مبتلا ہو رہی ہے وہ ہر صاحب فکر کے لیے بے حد تشویش ناک ہے‘ تمام احتیاطی تدبیروں کے باوجود منشیات کے استعمال کی شرح میں کمی کے بجائے مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے زمانے میں تعلیم کے ساتھ تربیت پر بھی زور دیا جاتا تھا‘ گھروں میں بزرگ اور کلاس رومز میں اساتذہ بچّوں کی اخلاقی تربیت پر بہت دھیان دیتے تھے لیکن آج تو ماد رپدر آزا د معاشرہ پروان چڑھ رہا ہے اور اس ’’مورال لیس سوسائٹی‘‘ کے ذمّے دار کہیں نہ کہیں ہم سب ہی ہیں‘ عصرِ حاضر میں ٹیکنالوجی کی ترقی سے دنیا گلوبل ویلیج تو بن گئی، ہمارے بچّوں کے ہاتھ موبائل فون نامی طلسماتی ڈیوائس بھی آگئی، لیکن اس کی وجہ سے جو بگاڑ پیدا ہوا اور ہو رہا ہے، وہ نا قابلِ برداشت ہے۔ڈاکٹر شعوانہ مفتی نے کہا کہ منشیات کا زہر ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے‘ کتنے ہی خاندان ایسے ہیں جو نشے میں مبتلا اپنے بچوں کے مستقبل سے ناامید ہو چکے ہیں‘ یہ علت معاشرے میں عمر کی تفریق کے بغیر کچھ اس طرح سے عام ہو چکی ہے کہ اسے ایک بین الاقوامی مسئلہ کہا جا رہا ہے‘ ہمارے نوجوان اکثر و بیشتر معاشرتی ردعمل اور نامناسب رہنمائی کی وجہ سے نشے جیسی لعنت کو اپنا لیتے ہیں‘ منشیات کے استعمال کی چند بنیادی وجوہات ہیں جن میں ذہنی دباؤ سرفہرست ہے یہ دباؤ جذباتی، معاشرتی، گھریلو حالات اور تعلیم کا بھی ہوسکتا ہے‘ منشیات کی لت کی دوسری بڑی وجہ شخصیت کا عدم توازن ہے اور تیسری وجہ دوستوں کا دباؤ ہے یعنی اگر کچھ دوست منشیات استعمال کرتے ہیں تو دوستوں کے دباؤ میں آکر نوجوان اس کا استعمال شروع کر دیتا ہے‘ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے امیر گھرانے کے نوجوانوں کو دیکھ کر متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان بھی منشیات کی لت کا شکار ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ منشیات دماغ کے خلیوں میں عدم توازن پیدا کردیتی ہے جس کے نتیجے میں دماغ اس طرح کام نہیں کرتا جس طرح سے عام لوگوں کا کرتا ہے اور نتیجتاً” انسان ذہنی، جسمانی اور سماجی طور پر معذور ہو جاتا ہے ‘آج ہماری نوجوان نسل منشیات سمیت دیگر علتوں میں مبتلا ہو کر ناصر ف اپنی زندگی تباہ کر رہی ہے بلکہ اپنے ساتھ اپنے خاندان والوں کے لیے بھی اذیت اور ذلت و رسوائی کا سبب بن رہی ہے‘ موجودہ دور میں منشیات کی فروخت روایتی نہیں بلکہ انتہائی جدید انداز میں سوشل میڈیا کے ذریعے کی جا رہی ہے‘ منشیات فروش واٹس ایپ اور فیس بک سمیت سوشل میڈیا کی دیگر ایپس استعمال کر رہے ہیں‘ واٹس ایپ پر ایک میسج 100 لوگوں تک بھی گیا تو ان میں 10 سے 15 نوجوان ان کے شکنجے میں پھنس ہی جاتے ہیں‘ اگر آپ کو شک ہے کہ بچہ کسی طرح کے نشے کا عادی ہے تو اس کا اندازہ اس کی حرکات و سکنات سے لگایا جا سکتا ہے‘اس کی چند علامات میں آنکھوں کا سرخ رہنا، وزن کا بہت زیادہ بڑھنا یا گر جانا، بھوک کا نہ لگنا، ذہنی طور پر سن اور رویے میں شدید بدلاؤ، زیادہ پیسوں کا مطالبہ کرنا، زبان میں لکنت اور روزمرہ کے کاموں کو سرانجام دینے میں دشواری کا آنا شامل ہیں۔ والدین اپنے بچوں کی تربیت اور نظم و ضبط سکھائیں‘ بعض اوقات مائیں بھی اپنے بچوں کی اس عادت پر پردہ ڈالتی ہیں کہ کہیں لوگ ان سے نفرت نہ کریں، باپ سختی نہ کرے۔ نشے کا عادی ہونا ایک بیماری ہے جس کا علاج کیا جا سکتا ہے لیکن اگر اس موضوع پر بات ہی نہیں ہو گی تو ایک دن یہ عادت جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔ احتیاط چونکہ علاج سے بہتر ہے، اس لیے والدین کی حیثیت سے یہ ضروری ہے کہ آپ اپنے بچوں کو زندگی گزارنے کے گر بھی سکھائیں‘ صرف اچھا تعلیمی نتائج لانا کامیابی کی ضمانت نہیں ہے‘ بچہ جس عمر میں بھی ہو‘ اسے کوئی ذمے داری دیں تاکہ وہ اس کی اہمیت کو سمجھے ‘ اس کا عادی بنے۔انہیں سکھائیں کہ اپنے جذبات کو کیسے قابو کرنا چاہیے اور مختلف رشتوں کے ساتھ زندگی کیسے گزاری جاتی ہے‘ زندگی میں کسی مقصد کا تعین بہت ضروری ہے‘ منشیات جیسے مسائل کے حل کے لیے کیرئیرکونسلنگ اور والدین کو بھی بچوں کے ساتھ دوستانہ ماحول قائم رکھنا چاہیے‘ نوجوانوں میں منشیات کے استعمال کی روک تھام کے لیے حکومت، سول سوسائٹی، پروفیسرز، ڈاکٹرز، انجینئرز، علما کرام سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے اہل علم کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔بیرسٹر زارا سحر ویانی نے کہا کہ کسی بھی ملک کو ترقی کی منازل پر لے جانے کے لیے اس کے نوجوان اثاثہ ہوتے ہیں تاہم شاید ہمارے حکمران نوجوانوں کے سر پر منڈلاتے ” ہائیڈروجن بم سے بھی خطرناک” منشیات مافیاکی طرف سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں‘ ہمارے ملک میں ڈرگ کنٹرول کا قانون تو موجود ہے لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا ، نہ تو انہیں کوئی روکنے والا ہے اور نہ ہی منشیات کے استعمال پر عملی طور پر کوئی پابندی نظر آتی ہے‘ ڈرگ مافیا اتنی طاقتور ہے کہ وہ ہر قسم کے غیرقانونی کام کرنے کے باوجود پکڑی نہیں جا تی‘ نہ ہی اسے ختم کرنے کے لیے کوئی کوشش کی جاتی ہے‘ کراچی کے مختلف علاقوں میں کہاں کہاں منشیات فروخت ہو رہی ہے‘ علاقہ پولیس اور دیگر ادارے اس سے باخبر ہوتے ہیں لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نشے کے عادی نوجوانوں میں لڑکیوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے جو ایک انتہائی تشویش ناک رجحان ہے۔ نشہ آور اشیا کا نئی نسل میں بڑھتا ہوا استعمال مالی لحاظ سے بہتر طبقے میں زیادہ ہے‘ ایسے گھرانوں میں پیدا ہونے والے بچوں کو ماں باپ ضرورت سے زیادہ آسائشیں دے کر انہیں اتنا آرام پسند بنا دیتے ہیں کہ یہ زندگی کی تلخیاں برداشت کرنے کے قابل ہی نہیں رہتے اور جلد ہی ہمت ہار دیتے ہیں اور خود کو نشے میں گم کر کے اس مشکل سے فرار حاصل کر لیتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ کراچی سمیت ملک بھر کے اسکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیز میں منشیات کا زہر نوجوانوں میں پھیلتا ہی جا رہا ہے‘ اگر اسے روکا نہ گیا تو قوم کے نوجوانوں میں مکمل طور پر منشیات کا زہر گھل جائے گا۔ منشیات استعمال کرنے کی وجوہات میں خراب صحبت، گھریلو ناچاقی، ازدواجی مسائل، ذہنی دباؤ، بے جا خوف، دین سے دوری، اہل خانہ کو اپنا دشمن سمجھنا، بے وقت کا سونا اور جاگنا شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں منشیات کے عادی افراد میں 78 فیصد مرداور 22 فیصد خواتین ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں روزانہ 500 سے زاید افراد نشے کا شکار ہو کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جو دہشت گردی سے مرنے والے افراد کی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔ منشیات کی لت میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد میں ہر سال 40 ہزار کا اضافہ ہو رہا ہے جو کہ بہت ہی تشویشناک ہے‘ پاکستان میں ایک کروڑ سے زاید افراد نشے میں مبتلا ہیں‘ گو کہ پاکستان میں سرکاری سطح پر اے این ایف‘ کسٹم اور ایکسائز سمیت 24 ایجنسیاں منشیات کے خلاف فعال ہیں‘ ہمارے ہاں پکڑی جانے والی منشیات میں سے 60 فیصد اینٹی نارکوٹکس فورس پکڑتی ہے جبکہ 40 فیصد باقی 23 ادارے پکڑتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ زہر تیزی سے معاشرے کی رگوں میں اترتا جا رہا ہے۔