موسم خزاں اور قوموں کے عروج و زوال کا موسم

1025

پاکستان موسموں کے اعتبار سے بہت خوش قسمت ملک ہے اس میں سارے موسم اپنی جھپ دکھاتے اور قلب و نظر کو شاد کرتے ہیں۔ آدمی ایک موسم سے اکتاہٹ محسوس کرتا ہے تو قدرت اس کی خوشی کے لیے دوسرا موسم بھیج دیتی ہے اور وہ اس کے ناز اُٹھانے میں لگ جاتا ہے۔ دیکھا جائے تو اصل موسم دو ہی ہیں، گرمی اور سردی لیکن ان دونوں موسموں کے کئی رنگ ہیں، برسات بھی ان دونوں موسموں کے درمیان ڈیرا جماتی اور دل بستگی کا سامان فراہم کرتی ہے۔ گرمی اور سردی کے درمیان بہار اور خزاں کے موسم بھی آتے ہیں اور انسانوں کو اپنے لطف سے نوازتے ہیں۔ ان دنوں سردی کا موسم ہے لیکن ساتھ ساتھ خزاں نے بھی اپنا خیمہ لگادیا ہے۔ اِسے پت جھڑ کا موسم بھی کہتے ہیں جس میں درخت اپنی پوشاک اُتار کر ٹنڈمنڈ ہوجاتے ہیں اور ایک ویرانی سی چھا جاتی ہے۔ خزاں میں اداسی، مایوسی، ناکامی اور زوال کا مفہوم بھی شامل ہے۔ مثل مشہور ہے۔ ’’ہر عروجے را زوالے‘‘۔ یعنی ہر عروج کے بعد زوال ضرور آتا ہے۔ بہار خوشی، شادمانی، کامیابی اور عروج کی علامت ہے۔ بہار آتی ہے تو درخت ہرے ہرے پتوں کی نئی پوشاک پہن لیتے ہیں۔ پودے سرخوشی اور سرمستی میں جھومنے لگتے ہیں۔ رنگ برنگے پھول کھل اُٹھتے ہیں اور فضا ان کی خوشبو سے مہکنے لگتی ہے۔ بہار کا دورانیہ اگرچہ زیادہ دیر نہیں رہتا لیکن اس کے اثرات تادیر محسوس کیے جاتے ہیں پھر جب اثرات معدوم ہونے لگتے ہیں تو خزاں کو قدم جمانے کا موقع مل جاتا ہے۔ نومبر، دسمبر اور جنوری موسم خزاں کے مہینے ہیں، ان مہینوں میں پتے پیلے ہو کر درختوں سے اپنا ناتا توڑ لیتے ہیں اور پیوند خاک ہوجاتے ہیں۔ شاعر نے کہا ہے:
مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہیے!
کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے
پتے بھی خاک میں مل کر زمین کی روئیدگی میں اضافہ کرتے ہیں اور موسم بہار میں نیا جنم لے کر درختوں کے لیے لباس فاخرہ بن جاتے ہیں۔ یہی حال موسموں کا ہے ان پر بھی عروج و زوال کے موسم آتے ہیں جو قومیں سخت جان ہوتی ہیں وہ موسموں کی تبدیلی کو جھیل جاتی ہیں اور اپنا وجود برقرار رکھتی ہیں۔ کمزور قومیں تاش کے پتوں کی طرح بکھر جاتی ہیں۔ دنیا کی تاریخ قوموں کے عروج و زوال سے بھری ہوئی ہے۔ قرآن نے بھی کتنی ہی قوموں کا ذکر ہے جو اپنے زمانے میں عروج کی انتہا کو پہنچی ہوئی تھیں۔ اس عروج نے ان کے اندر سرکشی اور بغاوت کی کیفیت پیدا کردی تھی اور یہی کیفیت ان کے زوال کا سبب بن گئی اور وہ لوحِ زمانہ سے حرفِ غلط کی طرح مٹادی گئیں۔ دیکھا جائے تو برصغیر میں پاکستان کا قیام مسلمانوں کے عروج کا زمانہ تھا۔ انہیں اقوام عالم میں ایک منفرد اور ممتاز قومی شناخت میسر آئی تھی اور انہوں نے بطور ایک پاکستانی قوم نہایت حوصلہ افزا طریقے سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ میر کارواں قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست ہوگا۔ یہاں قرآن کا آئین چلے گا۔ انصاف کی عملداری ہوگی۔ معیشت اسلامی اصولوں پر استوار کی جائے گی وغیرہ وغیرہ۔ قائد اعظم کے
دست ِ راست وزیراعظم لیاقت علی خان نے قومی اتفاق رائے سے قرار داد مقاصد کی منظوری دے کر راستے اور منزل کا تعین کردیا تھا، لیکن قبل اس کے کہ اس راستے پر قدم آگے بڑھتے لیاقت علی خان کو شہید کردیا گیا۔ پاکستان اپنی منزل کی جانب بڑھنے کے بجائے راستے ہی میں اُلجھ کر رہ گیا اور اسے اندرونی و بیرونی سازشوں نے گھیر لیا۔ پاکستان کی 74 سالہ تاریخ عروج کے بجائے زوال، بہار کے بجائے خزاں اور کامرانی کے بجائے ناکامیوں سے عبارت ہے۔ اندازہ کیجیے کہ صرف 24 سال کے اندر وہ اپنے آدھے وجود سے محروم ہوگیا، جو باقی بچا اس میں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہوگیا۔ حکمرانوں کی نااہلی، بددیانتی اور کرپشن نے ملک کے سارے ادارے تباہ کردیے۔ ریلوے، پاکستان اسٹیل اور پی آئی اے کو تو چھوڑیے کہ یہ اپنے زوال کی داستان زبانِ حال سے بیان کررہے ہیں۔ صحت، تعلیم، معیشت اور عدلیہ جیسے اہم شعبے جس تباہی و بربادی سے دوچار ہیں اس کی تفصیل بیان کرنے کا یارا نہیں۔ آئے دن نئے نئے اسکینڈل سامنے آتے رہتے ہیں۔ جو صاحب اس دعوے کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے کہ وہ آتے ہی سب کچھ ٹھیک کردیں گے ان کا حال یہ ہے کہ:
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
کسی معاملے میں بھی حکومت کی رِٹ (Writ) محسوس نہیں ہوتی۔ اِسے بہت سے مافیائوں نے گھیر رکھا ہے اور اس سے اپنے مطلب کے فیصلے کروا رہے ہیں۔ البتہ صاحب اقتدار کی زبان سے ہر وقت یہ بات سننے میں آتی رہتی ہے کہ وہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے، کسی کو این آر او نہیں دیں گے، حالاں کہ سب چھوٹے پھر رہے ہیں اور سب نے کسی اعلان کے بغیر این آر او بھی لے رکھا ہے۔
قدرت موسموں کے تغیر و تبدل کا پورا اختیار رکھتی ہے وہ کسی موسم کو ایک حد سے بڑھنے نہیں دیتی۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ گرمی آئے تو جانے کا نام ہی نہ لے یا سردی آئے تو واپس جانا ہی بھول جائے یا خزاں اور بہار آپس میں گڈمڈ ہوجائیں۔ یہ سارے موسم اپنے اپنے دائرے میں تیر رہے ہیں اور کوئی موسم کسی دوسرے پر قابو پانے کا اختیار نہیں رکھتا۔ اللہ کی قدرت ان سب پر غالب ہے، البتہ قوموں کے عروج و زوال اور ان پر آنے والی بہار و خزاں کے اصول مختلف ہیں۔ اس کا تعلق انسان کی مساعی سے ہے۔ قرآن نے یہ اصول طے کردیا ہے کہ لیس للَاِنسان الاّماسعیٰ۔ یعنی انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کے لیے وہ کوشش کرتا ہے۔ قومیں چوں کہ انسانوں ہی کا مجموع ہوتی ہیں اس لیے ان پر بھی اس اصول کا اطلاق ہوتا ہے۔ قوم جو بوتی ہے وہی کاٹتی ہے، جو کرتی ہے وہی سمیٹتی ہے۔ اِس وقت ملت اسلامیہ پاکستان خزاں کی جو فصل کاٹ رہی ہے۔ وہ اس کا اپنا کیا دھرا ہے۔ یہ صورت حال بدل سکتی ہے لیکن اس کے لیے اجتماعی دانش اور عزم صمیم بروئے کار لانے کی ضرورت ہے کیا ہم ایسا کرسکتے ہیں؟۔