سیاسی جماعتیں یا شاہ نور اسٹوڈیوز؟

544

ملک کی سیاست اور سیاسی مزاحمت کی تحریکیں اب عوامی طاقت اور گلی کوچوں اور جلسہ گاہوں کے بجائے آڈیو ویڈیو کی دنیا میں سمٹتی جا رہی ہے۔ ایک دور میں سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے پرجوش تقریروں اور پرشور نعروں کا سہارا لیا جاتا تھا۔ اخباری انٹرویوز کے ذریعے میڈیا کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اب ٹیکنالوجی کی جدت نے سیاسی جدوجہد کے انداز بدل دیے ہیں۔ اب سیاسی جدوجہد کو آگے بڑھانے اور لوگوں کو اپنا ہم نوا بنانے اور ذہن سازی کے لیے کچھ عرصے سے پاکستان کی سیاست میں آڈیو اور ویڈیو لیکس کے استعمال کا چلن عام ہو رہا ہے۔ اگر یہی عالم رہا تو سیاسی جماعتیں لاہور کے ماضی کے شاہ نور اسٹوڈیوز اور باری اسٹوڈیوز کی شکل اختیار کر جائیں گی اور اس سے ایک نئی تن آسانی جنم لے گی۔ پیسے کے زور پر آڈیو ویڈیو خریدنے اور تیار کرنے کو رواج بنالیا جائے گا۔ آئندہ جلسے جلوس کے ذریعے رائے عامہ ہموار کرنے کے بجائے سیاسی جماعتیں اپنے مخالفین کو زچ اور عوام کی نظروں سے گرانے کے لیے اسی طرح کی آڈیو اور ویڈیو لیکس کا سہار لیتی رہیں گی اور یوں اپنا سیاسی راستہ بنانے کا یہ شارٹ کٹ ہی سیاسی میدان کا لازمی حصہ بن کر رہے گا۔ لوگوں کی ذاتی زندگیوں کا یوں سرعام زیر بحث آنا کسی طور پر قابل قدر نہیں کہلا سکتا مگر اس طرح ہماری سیاسی اور حکمران اور بااثر کلاس جسے عرف عام میں ایلیٹ کلاس کہا جاتا ہے کے اندرونی کلچر کا پورا گند بھی دنیا کے سامنے آتا ہے۔
ابھی تک یہ طے ہونا باقی ہے کہ کون سی آڈیوز اور ویڈیوز جعلی ہیں اور کون سی کسی کاری گری اور مہارت کے نتیجے میں وجود میں آئی ہیں۔ اب جدید ٹیکنالوجی نے سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کرنے کے فن کو آسان بنادیا ہے۔ کسی کے دھڑ پر کسی اور سر لگانا اور آواز کے زیر وبم کی از سر نو ترتیب اب کوئی مشکل کام نہیں رہا۔ کاری گری ہوجائے تو اس کے بعد سوشل میڈیا کے ذریعے اسے مشرق سے مغرب تک کروڑوں انسانوں تک پہنچانا چنداں مشکل نہیں۔ آڈیو ویڈیو لیکس کی یہ سیاست جہاں بالادست طبقات کے کلچر کو پوری طرح بے نقاب کر رہی ہے وہیں اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ ہمارے بالادست طبقات سیاسی مقاصد کے لیے ایک دوسرے کے خلاف کس حد تک جانے کو تیار ہیں۔
پاکستان کی سیاست اس رویے سے کبھی بھی خالی نہیں رہی۔ ہر دور میں اس دور کے کچھ سیاسی طبقات نے یہ آسان حربہ استعمال کیا۔ ستر کی دہائی میں انتخابی مقاصد کے لیے خوب گند اچھا لا گیا تو پھر وقت کا پہیہ اُلٹا گھوم گیا اور اسی کی دہائی میں ایک معتبر سیاسی خاندان کی خواتین کی تصویریں ہیلی کاپٹروں سے گرائی گئیں۔ اب ٹیکنالوجی کی جدت کے بعد مخالفین کو نیچا دکھانے اور اپنے موقف کو تقویت دینے کے لیے جدید انداز اپنائے جانے لگے ہیں۔ سیاسی کلاس کی ان حرکتوں نے ہمیشہ فوج کے لیے گنجائش بڑھانے کا کام دیا اور جب بھی کوئی مارشل لا لگا تو اس کی دلیل اور تاویل کے لیے سیاسی کلاس کی انہی یا اس سے ملتی جلتی حرکتوں کا سہارا لیا گیا۔ اب یہ سلسلہ نئے انداز اور جدت کے ساتھ سیاست کا لازمی جزو بن کر رہ گیا ہے۔
کیپٹن صفدر نے چند دن قبل سینما اسکوپ فلم کے ساتھ ویڈیوز آڈیوز کے ایک بڑے ذخیرے کا انکشاف کیا تھا۔ اس انکشاف کی بنیاد پر قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ اس ذخیرے میں کن پاکباز اور سجدہ گزار لوگوں کے کمزور لمحات کی قبریں موجود ہوں گی؟ دونوں طرف سے آڈیو اور ویڈیو لیکس کا سلسلہ اس وقت زوروں پر ہے۔ اس سلسلے میں شدت سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو ٹیپ سے آئی۔ اس آڈیو کو مسلم لیگ ن نے اپنی قیادت کی بے گناہی اور بے وجہ معتوب بننے کے تاثر کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیا۔ دوسری طرف اس آڈیو کو جعلی ثابت کرنے کے لیے زور کلام اور زور بازو صرف کیا جا رہا ہے۔ یہاں تک اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس آڈیو کی بنیاد پر تحقیقات کے لیے ایک رٹ بھی دائر ہو گئی اور عدالت نے اس درخواست کا جائزہ لینا بھی شروع کیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے سوال پوچھا کہ فرض کریں جسٹس ثاقب نثار کی آڈیو اصلی ہے تو اس کی اصلی کاپی کس کے پاس ہے؟ اس سوال کے بعد سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی لاوارث آڈیو کلپ کے لیے کسی والی وارث کو آگے بڑھنا پڑے گا۔ محض کسی اسٹوڈیو میں کاری گری دکھا کر چیزیں سوشل میڈیا پر پھینک دینا اور اس کے بعد باجماعت اس لاوارث مواد کی حمایت میں پریس کانفرنسوں اور ٹی وی اسٹوڈیوز میں طوفان اُٹھانا کافی نہیں رہے گا۔ عدالت کو اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے کا کڑوا گھونٹ پینا ہی چاہیے۔ فیک نیوز کا زمانہ ہے۔ دنیا میں پوشیدہ مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے اذہان اور قلوب پر اثر انداز ہونے کے لیے جدید اور باوسیلہ لیبارٹریاں قائم ہیں اور انتخابی پنجہ آزمائی کا موسم بھی قریب آرہا ہے۔ اس سلسلے کو کسی سطح پر روکنا ہوگا اور سیاسی جماعتوں کو اپنے مسائل کے حل کے لیے اپنے زورِبازو پر بھروسا کرنے کا راستہ اپنانا ہوگا۔ یہ مشکل کام تو ضرور ہے مگر شارٹ کٹ کے بجائے یہی معقول اور دیر پا راستہ اور انداز ہے۔