کرنٹ اکائونٹ خسارہ اور افراط زر کے مسائل

423

گزشتہ دنوں وزارت خزانہ کی جانب سے رواں مالی سال 2021-22 کے پہلے چار ماہ کی اقتصادی رپورٹ جاری کی گئی جس کے مطابق ان چار ماہ میں مہنگائی کی شرح 8.7 فی صد رہی۔ ایف بی آر میں ریونیو 36 فی صد اضافے کے ساتھ 1843 ارب روپے جمع کرائے گئے۔ بیرون ممالک سے آنے والی ترسیلات زر میں 12 فی صد اضافہ ہوا اور 10 ارب 60 کروڑ ڈالر ملک میں آئے۔ براہ راست سرمایہ کاری میں 11.8 فی صد کمی ہوئی۔ ملکی برآمدات 32 فی صد اضافے کے ساتھ ساڑھے 9 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، جب کہ درآمدات میں اضافہ 66 فی صد رہا اور ان کا حجم گزشتہ 4 ماہ میں 23 ارب ڈالر رہا۔ اس طرح تجارتی خسارہ تقریباً 12 ارب ڈالر رہا جب کہ کرنٹ خسارہ 7 ارب ڈالر ہوگیا۔
اس رپورٹ میں خوش آئند بات یہ ہے کہ ایف بی آر کی کوششوں سے محصولات میں 36 فی صد اضافہ ہوا اور اگر یہی سلسلہ چلتا رہا تو مالی سال کے محصولات کا ہدف جو تقریباً ساڑھے 5 ہزار ارب روپے ہے وہ پورا ہوجائے گا، لیکن ان ٹیکسوں میں ابھی بھی بلاواسطہ ٹیکسوں کا ہدف زیادہ ہے یعنی سیلز ٹیکس، پٹرولیم لیوی، ریگولیٹری ڈیوٹی اور کسٹم ڈیوٹی، جب کہ اس میں سب سے بڑا حصہ انکم ٹیکس کا ہونا چاہیے، اس سے پتا چلتا ہے کہ ملک کی اشرافیہ اور امیر ترین لوگوں پر ٹیکسوں کا بوجھ کم ہے اور غریب و متوسط طبقہ اپنی آمدنی کے تناسب سے زیادہ ٹیکس دے رہا ہے اور اس کے جواب میں اسے حکومت سے کچھ نہیں مل رہا، وہ اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں بھیج رہا ہے، پرائیویٹ اسپتالوں سے علاج کرارہا ہے، رہائشی علاقوں میں نجی سیکورٹی ایجنسیوں سے اپنے علاقوں کی حفاظت کرا رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق 4 ماہ میں برآمدات کے مقابلے میں درآمدات کا حجم زیادہ رہا اور تجارتی خسارہ تقریباً 12 ارب ڈالر رہا۔ اندازہ ہوتا ہے کہ سال کے آخر تک یہ خسارہ 35 سے 40 ارب ڈالر تک چلا جائے گا۔ اگر خوش قسمتی سے عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں مزید کمی آگئی تو خسارہ کم بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن اس وقت اشد ضرورت یہ ہے کہ غیر ضروری اور لگژری اشیا کی درآمدات کو روکنے کے لیے ان کی امپورٹ ڈیوٹی میں اضافہ کیا جائے۔ ہوسکتا ہے کہ اس معاملے میں آئی ایم ایف کی بھی کچھ شرائط ہوں گی لیکن حکومت کو اس معاملے میں کوئی راستہ نکال کر غیر ضروری اشیا کی درآمد کو روکنے کا اقدام کرنا چاہیے۔
دوسرا مسئلہ افراط زر کا ہے۔ بلاشبہ 4 ماہ کی رپورٹ میں شرح 8.3 فی صد رہی ہے لیکن نومبر میں افراط زر 11.3 فی صد رپورٹ ہوا ہے۔ یہ صورت حال بہت تشویشناک ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شرح سود 8.45 فی صد تک بڑھانے کے بعد افراط زر کنٹرول نہیں ہوسکا۔ اب اگر اسٹیٹ بینک شرح سود میں مزید اضافہ کرتا ہے تو شاید افراط زر میں کچھ کمی آجائے لیکن اس کا منفی اثر یہ ہوگا کہ کاروباری سرگرمیوں اور مجموعی قومی پیداوار (GDP) کی نشوونما میں کمی آجائے گی اور دوسری طرف ملکی قرضوں کا حجم بغیر قرضے لیے بڑھ جائے گا۔ اس سے پہلے بھی جب سال 2019ء میں اسٹیٹ بینک نے شرح سود 13.25 فی صد کردی تھی تو اس کا شدید منفی اثر ملک کی تمام پیداواری اور کاروباری سرگرمیوں پر ہوا تھا۔
تیسرا اہم مسئلہ کرنٹ اکائونٹ خسارے کا ہے جو 5 ارب ڈالر ہوچکا ہے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ حکومتی اقدامات کے باعث بیرونی ممالک میں رہنے والے پاکستانی اپنی رقومات بینکنگ چینل سے بھیج رہے ہیں اور ترسیلات زر میں 12 فی صد اضافہ ہوا ہے اور یہ آئندہ بھی رہے گا لیکن کرنٹ اکائونٹ خسارہ اگر بڑھتا ہے تو کرنسی پر اس کا دبائو آئے گا اور ڈالر جو اس وقت 175 روپے کا ہوگیا ہے وہ مزید مہنگا ہوگا اور اس سے ملک کی مجموعی معیشت پر انتہائی تباہ کن اثرات ہوں گے اور یہی بات وزارت خزانہ نے اپنے ایک بیان میں کہی ہے کہ مہنگائی اور بیرونی شعبہ پر دبائو معیشت کے لیے اہم مسئلہ ہے۔
اس تمام صورت حال کو دیکھ کر ملک کے ایک سینئر ماہر معیشت حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ بہت سخت شرائط پر معاہدہ کیا ہے اور آئندہ کی صورت حال کوئی بہتر نظر نہیں آرہی صرف دعا کی جاسکتی ہے۔