مغربی جمہوریت تضادات کی دلدل میں

350

امریکا میں اگلے ماہ جمہوریت سے متعلق ایک عالمی ورچوئل کانفرنس منعقد ہو رہی ہے۔ جس میں پاکستان سمیت ایک سو دس ممالک کے نمائندے شرکت کر رہے ہیں۔ امریکا کی نظر میں جو ممالک جمہوری نہیں انہیں کانفرنس میں مدعو نہیں کیا گیا۔ چین اور ترکی اس میں شامل ہیں جبکہ عرب ملکوں کو بھی کانفرنس میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔ جمہوریت کو درپیش خطرات اور چیلنجز کے حوالے سے منعقدہ اس کانفرنس سے کچھ ہی دن پہلے سویڈن کے ادارے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ڈیمو کریسی اینڈ الیکٹورل اسسٹنس (انٹرنیشنل آئیڈیا) نے ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ جس میں جمہوریت کی عالمگیر صورت حال کو زیادہ خوش آئند قرار نہیں دیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ٹرمپ حکومت کے دور میں ہونے والی توڑ پھوڑ کے نتیجے میں کئی دیگر جمہوریتیں بھی واضح طور پر کمزور ہوئی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران جمہوریت کی پسپائی میں دوگنا تیزی آئی ہے۔ اور اب یہ صورت حال چوتھائی دنیا میں پائی جاتی ہے۔ ان ممالک میں امریکا یورپی یونین ممالک جیسی مستحکم جمہوریتیں اور ہنگری پولینڈ اور سلووانیا بھی شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دنیا کے دوتہائی ممالک میں جمہوریت اُلٹے پائوں پیچھے ہٹ رہی ہے۔ یہ پہلی دفعہ ہے کہ ہم نے امریکا میں جمہوریت کو پیچھے ہٹتے دیکھا ہے۔ امریکا میں جمہوریت کے پیچھے ہٹنے کا عمل 2019 میں شروع ہوا۔ اس میں ایک اہم موڑ اس وقت آیا جب ٹرمپ نے انتخابات میں دھاندلی کا نعرہ لگایا۔ دنیا میں جمہوریت کو سب سے زیادہ نقصان بڑے جمہوری ملک کہلانے والے ملکوں بھارت اور برازیل میں پہنچا۔ امریکا، بھارت، ہنگری، فلپائن میں ایسے اقدامات کیے گئے جنہیں جمہوریت کے خلاف کہا جا سکتا ہے۔
دنیا میں اٹھانوے ممالک میں جمہوریت ہے۔ یہ تعداد گزشتہ کئی برسوں بعد اپنی کم ترین سطح پر ہے۔ روس، مراکش اور ترکی سمیت بیس ملکوں میں ہائبرڈ جمہوریت ہے۔ چین، سعودی عرب، ایتھوپیا اور ایران سمیت سنتالیس ممالک میں مطلق العنان حکومت ہے جبکہ پاکستان کو کمزور جمہوریت کہا گیا ہے۔ جمہوریت کی صورت حال میعار اور کیفیت کو مانیٹر کرنے والے ادارے کی یہ رپورٹ خاصی اہم ہے اور جو یہ بتا رہی ہے کہ دنیا میں جمہوریت کا سورج اپنی بھرپور چمک دمک دکھانے کے بعد زوال آشنا ہے۔ اب امریکا کو بھی شاید اس بات کا احساس ہوگیا کہ جمہوری نظام روبہ زوال ہے اور اسی احساس نے صدر جوبائیڈن کو کانفرنس منعقد کرنے پر مجبور کیا ہے۔ سرد جنگ کے زمانے میں دنیا دو بلاکوں میں تقسیم تھی تو جمہوریت کی چمک دمک اور ستارہ پورے عروج پر تھا۔ مغربی ممالک جہاں سے جمہوریت نے جنم لیا ہے سوویت یونین اور کمیونسٹ بلاک کی پابندیوں کو نیچا دکھانے اور ان پابندیوں کا شکار عوام کو ریجھانے کے لیے آزادیوں کی ندیاں بہا اور منڈیاں سجا رہے تھے۔ جمہوریت کو دنیا کے لیے پرکشش نظام اور کمیونسٹ نظام کو آزادیوں کا دشمن اور گھٹن اور جبر کا باعث قرار دیا جارہا تھا۔ جمہوری ملکوں میں ترقی کی رفتار بھی تیز تھی اور دنیا بھر میں شخصی یا کمیونسٹ حکومتوں کی گھٹن اور حبس کے ستائے ہوئے عوام مغرب کی جمہوری جنت کا رخ کررہے تھے۔ پھر سرد جنگ کی دیوار دھڑام سے نیچے آگری اور دنیا آن واحد یک قطبی ہوئی۔ امریکا دنیا کا واحد تھانیدار بن گیا۔ اسے بدلی ہوئی دنیا کے لیے ایک نئے ورلڈ آرڈر کی ضرورت پیش آئی اور اس ورلڈ آرڈر کو قبول عام اور دوام بخشنے کا مرحلہ آیا تو امریکا کو طاقت کا استعمال کرنے کی ضرورت پڑ گئی۔ جنگوں کا سہار ا لینا پڑا۔ سوویت کمیونسٹ نظام کو گرانے والے امریکا کے ورلڈ آرڈر میں خود سوویت یونین کے جراثیم پیدا ہونے لگے۔ طاقت سے اپنی بات منوانے اور ٹھونسنے کا عمل شروع ہوا یہاں تک کہ نائن الیون کا حادثہ رونما ہوگیا۔ جس کے بعد مغربی جمہوریت اپنی میک اپ اور ظاہری چمک دمک سے محروم ہونے لگی۔ نئی جنگ کی خاطر قوانین ترتیب دیے گئے جن میں زیادہ سختی کرختگی اور شدت عود کر آئی اور بین الاقوامی سطح پر اور دوسرے ملکوں پر اپنے فیصلے ٹھونسنے کے عمل نے بڑی جمہوریت کو شخصی اور سخت گیری کے رنگ دینا شروع کیے۔ یوں کمزور اور بدحال ملکوں کے حلق میں زبردستی جمہوریت کا جام انڈیلنے کی خواہش اور کوشش میں امریکا خود مغرب میں جمہوریت کو کمزور کر بیٹھا۔
امریکا نے جمہوریت کے پیکٹ کے ساتھ ایک ساشے بھی مفت میں بانٹنے کی پالیسی اپنائی وہ تھی ایک مخصوص ثقافت اور تہذیب۔ اس اصل پیکٹ کے ساتھ ساشے بانٹنے کا نتیجہ پہلے الجزائر اور بعد ازاں مصر میں عوامی فیصلوں کو دبانے کی سرپرستی کی صورت میں نکلا اور یوں مسلمانوں کا ایک وسیع طبقہ جمہوریت سے مایوس ہوگیا۔ یہ تو ایسا ہی کہ چین اپنے نظام کے ساتھ اپنی غذائوں اور ثقافت کو قبول کرنے پر بھی اصرار کرے تو لامحالہ اس کا ردعمل ہوگا۔ لوگوں کو ان کی انفرادیت میں قبول نہ کرنے کی یہ سوچ جمہوری کے بجائے آمرانہ رویوں کو فروغ دیتی ہے۔ یوں مغربی جمہوریت اپنے تضادات کے دلدل میں دھنستی چلی گئی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کے نام پر وہی رویہ اپنایا گیا جو ہٹلر نے جرمنی کالنگ اورلارڈ ہاہا جیسے انداز سے اپنایا تھا یعنی پروپیگنڈے کے ذریعے ذہنوں کو تسخیر کرنے کا انداز۔ اس نے مغرب کے کھلے جمہوری ذہن میں آمریت کے رنگ ڈھنگ پیدا کیے۔ جمہوریت کچھ رویوں اور احساسات کا نام ہے اور یہ ختم ہوجائیں تو یہ نظام اپنی بنیاد پر قائم نہیں رہ سکتا۔ جمہوریت کو لاحق یہ وائرس دنیا بھر میں پھیل گیا یہاں تک بھارت جو خود کو دنیا کی سب بڑی جمہوریت کہلاتا تھا آج جمہوریت کا دامن اور گریباں چاک کر بیٹھا ہے جس کا تذکرہ سویڈن کے ادارے کی رپورٹ میں بھی یوں ہے کہ بھارتی جمہوریت کے کئی اقدامات کا جمہوریت سے دور دور کا تعلق نہیں۔