ڈیٹا فلو آرڈیننس کے باوجود صوبے وفاق کوڈیٹا نہیں دے رہے ہیں، قومی اسمبلی زراعت کمیٹی میں انکشاف 

240

 قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی برائے  زرعی مصنوعات کی ذیلی کمیٹی میں انکشاف  ہواہے کہ   ڈیٹا فلو آرڈیننس کے باوجود صوبے وفاق کوڈیٹا نہیں دے رہے ہیں ،ڈیٹا فلو آرڈیننس کے تحت صوبوں کوپابند کیاگیاہے کہ وہ اشیاء خردونوش کی پیداوار،ذخیرے کے بارے میں روزانہ کی بنیاد پر وفاق کو آگاہ کرئے ۔حکام نے بتایاکہ سپارکو کااپناسیٹلائٹ اس قابل نہیں کہ روزانہ کی بنیاد پر ڈیٹا دے سکے،ڈیٹا خریدناپڑتاہے ۔ذیلی کمیٹی نے زراعت کے بہتری کے لیے متعلقہ اداروں سے 15دسمبر تک تحریری سفارشات طلب کرلی ہیں ،ذیلی  کمیٹی 31دسمبر کواپنی سفارشات پیش کرئے گیجس کے بعد سپیکرسفارشات وزیراعظم کو پیش کریں گے۔جمعہ کو قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی برائے  زرعی مصنوعات کی ذیلی کمیٹی کااجلاس کنوینئر شاندانہ گلزار کی سربراہی میں    پیپس اسلام آباد میں ہوا۔اجلاس میں احسان اللہ، ٹوانہ نفیسہ خٹک، چیئرمین ایس ای سی پی،سپارکو ،وزارت کامراس اوروزارنیشنل فوڈ سیکیورٹی  کے حکام نے کمیٹی میں شرکت کی ۔چیئرمین ایس ای سی پی نے فصلوں کی انشورنش کے حوالے سے کمیٹی کوبتایا۔اجلاس میں نیشنل کراپ انشورنس سکیم کی تجاویز زیر غورآیا ۔حکام  وزارت تجارت  نے کمیٹی کوبتایاکہ اگر این آئی سی ایل کو کمیٹی ہدایت کرے تو اس پر کام شروع ہو سکتا ہے،اگر کمیٹی ہدایت کردے تو این آئی سی ایل 23مارچ سے فصلوں کی انشورنشپر کام شروع کرئے ۔کمیٹی نے این آئی سی ایل فوری طور پر کمیٹی کو انشورنس کا شارٹ ٹرم حل بتائے۔کنوینئر کمیٹی  نے کہاکہ ہمارے پاس فنڈز موجود ہیں مگر وہ استعمال نہیں ہورہے ہیں اگر کہیں استعمال ہورہے ہیں تو وہ بڑاکاشتکار لے لیتاہے اور چھوٹے کاشتکار کوکچھ نہیں ملتاہے اس حوالے سے پالیسی 31دسمبر تک سب کمیٹی نے اپنی سفارشات کمیٹی کوپیش کرنی ہیں جس کے بعد سپیکر یہ سفارشات وزیراعظم کوپیش کریں گے  ،15دسمبر تک این آئی سی ایل ہمیں اپنی تجاویز دے۔حکام وزارت فوڈ سکیورٹی نے کمیٹی کوبتایاکہ انشورنس کمپنیوں کیلئے 9.2 ملین کاشتکار ایک مارکیٹ ہے لیکن ہمارے پاس اسسمنٹ ٹولز نہیں،پرائیویٹ کمپنیوں کو ہم نے ایک ماحول بنا کر دینا ہے اعداد و شمار دینے ہیں وہ خود آئیں گے، 18ویں ترمیم کے بعد صوبے آسانی سے اعدادوشمار بھی نہیں دیتے،ڈیٹا فلو آرڈیننس کے باوجود صوبے ہمیں ڈیٹا نہیں دیتے۔ حکام سپارکو نے کہاکہ ہماری اپنی سیٹلائٹ 2015 میں لانچ کی تھی لیکن وہ اس قابل نہیں کہ روزانہ کی بنیاد پر ڈیٹا دے سکے،جب ہائی ریزولوشن ڈیٹا لینا ہوتو دیگر سیٹلائٹس کی مدد لینی پڑتی ہے جو بہت مہنگا پڑتا ہے،متعلقہ ادارے ہمیں پیسے نہیں دیتے ہیں جس کی وجہ سے منصوبے رک جاتے ہیں ۔ڈیٹا حاصل کرنامسئلہ نہیں اصل مسئلہ فنڈز کاہے ہم ڈیٹا لینے کے لیے پیسے دینے ہوتے ہیں اوراکثر وہ غیرملکی کرانسی میں ادائیگی کرنے ہوتی ہے ۔