مصنوعی تنفس کا استعمال

679

اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی موت کا وقت مقرر کردیا ہے۔ جب وہ آجائے گا تو موت طاری ہونے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں ہوسکتی۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے: ’’جب کسی کی مہلتِ عمل پوری ہونے کا وقت آجاتا ہے تو اللہ اْس شخص کو ہرگز مزید مہلت نہیں دیتا‘‘۔ (المنافقون: 11)
پہلے کسی انسان کی موت کا فیصلہ ظاہری علامتوں کو دیکھ کر کیا جاتا تھا۔ مثلاً: اس کی ایک نمایاں علامت آنکھیں پتھرا جانا (کھلی رہ جانا) ہے۔ احادیث میں بھی اس کا تذکرہ ملتا ہے۔ سیدنا ابوسلمہؓ کی وفات کے وقت رسول اللہؐ ان کے گھر تشریف لے گئے، دیکھا کہ ان کی آنکھیں پتھرائی ہوئی ہیں۔ آپؐ نے انھیں بند کیا، پھر فرمایا: ’’جب کسی شخص کی روح قبض ہوجاتی ہے تو اس کے بعد اس کی نگاہ بھی سلب کرلی جاتی ہے‘‘۔ (مسلم، کتاب الجنائز)
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’انسان کی جب موت ہوجاتی ہے تو اس کی آنکھ کھلی کی کھلی رہ جاتی ہے‘‘۔ (مسلم)
موت کی دوسری علامتوں میں جسم ڈھیلا پڑجانا اور اس میں کسی طرح کی حس وحرکت کا نہ پایا جانا، سانس رک جانا اور حرکت قلب بند ہوجانا بھی ہے۔ جس شخص میں یہ علامتیں ظاہر ہوجاتی تھیں اسے مردہ سمجھ لیا جاتا تھا۔
اب طبّی تحقیقات نے موت کی تفصیلی کیفیت اور اس کی جزئیات فراہم کردی ہیں۔ اس کے مطابق پہلے انسان کا دل اور پھیپھڑے کام کرنا بند کردیتے ہیں۔ اسے تشخیصی موت (deathe Climical) کہتے ہیں اس کے نتیجے میں دماغ کو آکسیجن کی سپلائی بند ہوجاتی ہے تو تین سے چھ منٹ کے دوران دماغ کے خلیّات کی موت ہوجاتی ہے۔ اسے دماغی موت (Death Brain) کہتے ہیں۔ اس کے بعد جسم کے مختلف اعضا کے خلیّات بھی مرنے لگتے ہیں۔ بعض اعضا کے خلیّات جلد متاثر ہوتے ہیں اور بعض کے دیر میں اسے خلوی موت (Death Cellular) کہا جاتا ہے۔ موت کے معاملے میں ان تدریجی مراحل میں فیصلہ کن مرحلہ دماغی موت کا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اس کے بعد زندگی کی بنیادی خصوصیات

مثلاً ادرک و شعور وغیرہ واپس نہیں آسکتیں۔
وینٹی لیٹر نامی مشین کی ایجاد سے اب یہ ممکن ہوگیا ہے کہ کچھ عرصے تک تنفس کا عمل بحال اور قلب کی حرکات منضبط رکھی جاسکیں۔ اب اگر دماغ کی کارکردگی بالکل ختم ہوگئی ہو اور اس کے خلیّات کی موت ہوگئی ہو۔ اس کی ظاہری حرکت بالکل مفقود ہوجاتی ہے۔ تو اس کا مطلب یقینی موت ہے۔ اس لیے کہ وینٹی لیٹر کے استعمال کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ دماغی موت کے بعد بھی وینٹی لیٹر کا استعمال جاری رہے تو اس کا فائدہ بس اتنا ہوتا ہے کہ اس کے ذریعے جسم کے مختلف اعضا کو آکسیجن کی مناسب مقدار پہنچتی رہتی ہے۔ اس طرح دوسرے اعضا کے خلیّات کو مرنے سے تو نہیں بچایا جاسکتا، البتہ ان کی موت کے عمل کو سست ضرور کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر دماغ کی کارکردگی متاثر نہ ہوئی ہو تو زندگی کی طرف واپسی کا امکان باقی رہتا ہے۔ ایسی صورت میں وینٹی لیٹر کا استعمال ضروری ہوتا ہے۔ تاکہ دماغی خلیّات کو آکسیجن کی فراہمی ہوتی رہے اور ان کی موت نہ ہو۔
اس تفصیل کا حاصل یہ ہے کہ جب تک مریض کی، زندگی کی طرف واپسی کی امید قائم ہو، اس وقت تک علاج معالجے میں کوئی کسر نہیں اٹھائی جائے گی اور اس وقت تک مصنوعی تنفس کے آلات کا استعمال کرنا بھی درست ہوگا۔ اس سلسلے میں اللہ کے رسولؐ کی عمومی رہنمائی موجود ہے۔ آپؐ نے فرمایا:
’’اے اللہ کے بندو! علاج کراؤ۔ اس لیے کہ اللہ نے کوئی بیماری ایسی نہیں رکھی ہے، جس کا اس نے کوئی علاج نہ رکھا ہو‘‘۔ (ترمذی، ابوداؤد)
مرض کے کس مرحلے پر زندگی کی طرف واپسی کا امکان باقی ہے اور کب اس کا امکان ختم ہوگیا ہے، اس کے بارے میں فیصلہ کن رائے ماہر طبیب کی ہوگی۔ جب وہ یہ رائے دے دے تو علاجی تدابیر موقوف کی جاسکتی ہیں اور مصنوعی تنفس کے آلات بنائے جاسکتے ہیں۔
یہ مسئلہ مختلف ممالک کی فقہ اکیڈمیوں میں زیرغور رہا

ہے۔ ماہرین کی تحقیقات اور اصحابِ علم و فقہ کی آراء کی روشنی میں طویل بحث و مباحثہ کے بعد جو قرار دادیں منظور کی گئی ہیں، ان میں وہی بات کہی گئی ہے جس کا تذکرہ اوپر کی سطور میں کیا گیا ہے۔ ذیل میں ان قراردادوںکو نقل کیا جاتا ہے:
تنظیم اسلامی کانفرنس (OIC) کے زیر اہتمام قائم بین الاقوامی اسلامی فقہ اکیڈمی جدہ کے تیسرے اجلاس منعقدہ عْمان (اردن) 1968 میں یہ قرارداد منظور کی گئی تھی:
’’اگر کسی شخص میں مندرجہ ذیل دو علامتوں میں سے کوئی ایک علامت ظاہر ہوجائے تو شرعاً اسے مردہ تصورکیا جائے گا اور اس پر موت کے تمام احکام جاری ہوں گے‘‘۔
1۔اس شخص کے دل کی حرکت اور نفس مکمل طور پر اس طرح رک جائے کہ ماہر اطباء یہ کہیں کہ اب اس کی واپسی ممکن نہیں۔
2۔اس کے دماغ کے تمام وظائف بالکل معطل ہوجائیں اور ماہر اور تجربہ کار اطباء اس بات کی صراحت کریں کہ یہ تعطل اب ختم نہیں ہوسکتا اور اس کے دماغ کی تحلیل ہونے لگی ہے۔
ایسی حالت میں محرک حیات آلات کو اس شخص سے ہٹالینا جائز ہے، خواہ اس کا کوئی عضو مثلاً قلب محض آلے کی وجہ سے مصنوعی حرکت کررہا ہو۔ (جدید فقہی مسائل اور ان کا مجوزہ حل، طبع کراچی، ص:52)
رابطہ عالم اسلامی کے تحت قائم المجمع الفقہی الاسلامی مکہ مکرمہ نے اپنے دسویںاجلاس منعقدہ مکہ مکرمہ 1987 میں اس موضوع کے مختلف پہلوؤں پر غور وخوض کے بعد درج ذیل فیصلہ کیا:
’’جس مریض کے جسم سے زندگی جاری رکھنے کے آلات لگے ہوں، اگر اس کے دماغ کی کارکردگی مکمل طور پر بند ہوجائے اور تین ماہر اور واقف کار ڈاکٹر اس بات پر متفق ہوں کہ اب یہ کارکردگی بحال نہیں ہوسکتی ہے تو اس مریض کے جسم سے لگے ہوئے آلات ہٹالینا درست ہے۔ خواہ ان آلات کی وجہ سے مریض میں حرکتِ قلب اور نظام تنفس قائم ہو۔ البتہ مریض کی موت شرعاً اس وقت سے معتبر مانی جائے گی۔ جب ان آلات کے ہٹانے کے بعد قلب اور تنفس اپنا کام بند کردیں‘‘۔(المجمع الفقہی الاسلامی مکہ مکرمہ کے فقہی فیصلے، ص:122)
اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) نے بھی اس موضوع پر اپنے سولہویں سمینار منعقدہ اعظم گڑھ (یوپی) 2007 میں غور کیا اور بحث ومباحثے کے بعد درج ذیل تین قراردادیں منظور کیں:
1۔جب سانس کی آمد و رفت پوری طرح رک جائے اور موت کی علامات ظاہر ہوجائیں تب ہی موت کے واقع ہونے کا حکم لگایا جائے گا اور اسی وقت سے موت سے متعلق وصیت کا نفاذ، میراث کا اجراء اور عدّت کا آغاز وغیرہ احکام جاری ہوں گے۔
2۔اگر مریض مصنوعی آلہ تنفس پر ہو، لیکن ڈاکٹر اس کی زندگی سے مایوس نہ ہوئے ہوں اور امید ہو کہ فطری طور پر تنفس کا نظام بحال ہوجائے گا تو مریض کے ورثے کے لیے اسی وقت مشین کا ہٹانا درست ہوگا، جب کہ مریض کی املاک سے اس علاج کو جاری رکھنا ممکن نہ ہو، نہ ورثہ ان اخراجات کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور نہ اس علاج کو جاری رکھنے کے لیے کوئی اور ذریعہ میّسر ہو۔
3۔اگر مریض آلۂ تنفس پر ہو اور ڈاکٹروں نے مریض کی زندگی اور فطری طور پر نظام تنفس کی بحالی سے مایوسی ظاہر کردی ہو تو ورثے کے لیے جائز ہوگا کہ مصنوعی آلہ تنفس علاحدہ کردیں۔
(نئے مسائل اور فقہ اکیڈمی کے فیصلے، طبع دہلی، ص:187)
OOO