غزوۂ حنین حقیقی قیادت کا بہترین نمونہ

314

سیرت کا ایک قابل ذکر واقعہ غزوۂ حنین کے موقعے پر پیش آیا۔ یہ ایسا واقعہ ہے، جس کا ذکر پروفیسر جان اڈیر نے مختلف حصے داروں کے مطالبات کو دیانت داری اور اصولوں کی پاس داری کے ساتھ پورا کرنے کے متعلق بطور خاص ذکر کیا ہے۔ حنین ایک بہت مشکل مرحلہ تھا۔ اس موقعے پر آپؐ نے کمال دانش مندی، بے مثال حکمت اور بھرپور بصیرت کے ساتھ لیڈر شپ کا مظاہرہ کیا۔ کسی نے کہا ہے کہ ’’لیڈر شپ ایک ٹی بیگ کی طرح ہے، جس کے متعلق یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ یہ کتنی دیر تک گرم پانی میں بہتر رہے گا‘‘۔ غزوۂ حنین کے موقع پر نبی کریمؐ نے ثابت کیا کہ وہ دْنیا کے سب لیڈروں میں عظیم ترین کیوں تھے۔
مکہ کی پْرامن فتح کے بعد بعض پڑوسی قبائل مسلمانوں کی ابھرتی ہوئی طاقت پر اشتعال میں آئے۔ بنو ہوازن نے بطور خاص جنگ کا راستہ اختیار کیا اور مسلمانوں کو نیست ونابود کرنے کی کوشش کی۔ وادیٔ حنین میدان جنگ بن گئی، جہاں 12 ہزار مسلمانوں کو چار ہزار دشمنوں کا سامنا تھا۔ یہ پہلاموقع تھا جب مسلمانوں کو واضح عددی برتری حاصل تھی (اس کے برعکس بدر میں مسلمانوں کی تعداد دشمن کے مقابلے میں بہت کم تھی، لیکن فتح مسلمانوں کو ملی )۔ اس عددی برتری کی بدولت بہت سارے لوگوں کا یہ خیال تھا کہ یہ جنگ آسان ہے۔
تاہم جونہی مسلمانوں نے وادی میں قدم رکھا تو گھات میں بیٹھے دشمن کے فوجیوں نے تیر برسانے شروع کر دیے۔ مسلمان خلاف توقع گھیرے میں آچکے تھے۔ بہت سے مسلمان میدان چھوڑ کر بھاگ گئے۔ حوصلہ مند پیغمبرؐ دشمن کے سامنے اکیلے ڈٹ کر کھڑے رہے۔ نبی کریمؐ اور آپؐ کے وفادار ساتھیوں نے بھاگنے والوں کو واپس بلایا۔ اس طرح آپؐ کی قیادت میں مسلمانوں نے میدانِ جنگ کا کنٹرول سنبھالا، اور بنوہوازن پر غالب آگئے۔ بھاگنے والوں کے لیے سبق سورۂ توبہ میں نازل ہوا جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اسباب جمع کرنا اور اللہ پر بھروسا رکھنا دونوں ضروری ہیں۔ محض دنیاوی اسباب جمع کرنے اور عددی برتری پر فتح کا دارومدار نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنی چاہیے، وہی فتح دے سکتا ہے۔ یہ سبق بھی ہے کہ اللہ کی مدد اور نصرت کے مستحق وہ لوگ ہیں جن کا کردار اچھا ہو، جو امین ہوں۔
نبی اکرمؐ کی قیادت کے جوہر اس وقت اور نمایاں ہوکر سامنے آتے ہیں، جب ہم حنین کے مشکل وقت میں آپؐ کو مختلف لوگوں کے جذبات کا خیال کرتے دیکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر نبی اکرمؐ کی رضاعی بہن شیامہ بنت حلیمہ میدان جنگ میں گرفتار ہو کر آگئیں۔ انھوں نے بتایا کہ میں نبی اکرمؐ کی رضاعی بہن ہوں۔ پہلے کسی کو یقین نہ آیا۔ انھوں نے نبی اکرمؐ سے ملنے کی درخواست کی۔ چنانچہ نبی اکرمؐ کے سامنے لائی گئیں۔ آپؐ ان کو نہ پہچان سکے پھر انھوں نے اپنے بازو پر وہ نشان دکھایا جو بچپن میں نبی اکرمؐ نے کاٹ کر لگایا تھا۔ پہچاننے کے بعد آپؐ نے بڑی گرم جوشی سے ان کا استقبال کیا اور ان کے بیٹھنے کے لیے اپنی چادر بچھائی۔ میدان جنگ کے ناخوش گوار ماحول میں گرم جوشی، صبر اور جذباتی ذہانت کی یہ ایک عمدہ مثال ہے۔
ایک اور اہم موقع وہ تھا، جب شکست خوردہ بنی ہوازن کے قیدیوں نے نبی اکرمؐ کے سامنے رحم کی درخواست کی۔ ان کی درخواست کی منظوری ایک مشکل فیصلہ تھا کیونکہ جنگی قیدی اور مال غنیمت لڑنے والوں کا حق ہوتا ہے۔ تاہم جان اڈیر کے مطابق آپؐ نے درمیانی راہ نکالی۔ آپؐ نے فرمایا کہ جو لوگ اپنی مرضی سے اپنا حق چھوڑنے کے لیے تیار ہیں، وہ سامنے آئیں۔ قیدیوں کے بدلے میں منہ مانگے فدیے کا یہ نادر موقع تھا، تاہم نبی اکرمؐ کے اس اعلان پر بہت سارے لوگوں نے بغیر کسی فدیے کے قیدیوں کو رہا کردیا۔ بعض لوگ فدیہ لیے بغیر رہائی سے ہچکچا رہے تھے۔ آپؐ نے ان کو اونٹ اور بکریاں دیکر قیدی رہا کروائے۔ یہ آپؐ کی حکمت ودانائی، دیانت وامانت اور شفافیت کی ایک نہایت عمدہ مثال ہے۔
انصار میں سے آپؐ کے قریبی ساتھیوں کا ایک گروہ ایسا بھی تھا جن کا خیال تھا کہ وہ نظر انداز ہوگئے ہیں اور ان کو مال غنیمت میں سے بہت تھوڑا حصہ ملا ہے۔ نبی اکرمؐ کو اس تھوڑی سی بیچینی کا جونہی پتا چلا، آپؐ نے اس احساسِ محرومی کو نظر انداز نہیں کیا، جس طرح اکثر لیڈر کرتے ہیں بلکہ آپؐ ان کے پاس گئے اور ان سے پوچھا کہ ان کو یہ احساس کیوں ہے؟ ساتھیوں نے ہچکچاتے ہوئے کہا کہ دوسرے لوگوں کو زیادہ حصہ ملا ہے، جب کہ ہم محروم رہ گئے، حالانکہ ہماری قربانیاں زیادہ ہیں۔ یہاں وہ موقع تھا جب نبی اکرمؐ کی روحانی ذہانت اور بصیرت سامنے آئی۔
آپؐ نے فرمایا: جس وقت دوسرے لوگ اپنے گھروں میں اْونٹ اور بکریاں لے کر جارہے ہوں گے، انصار وہ خوش قسمت ہیں جو اپنے ساتھ اللہ اور اس کے نبی کو لے کر جائیں گے۔ اس بات پر انصار روپڑے اور چند لمحے پہلے کے اپنے احساسات پر نادم ہوئے۔ گویا کہ کریمؐ نے اس موقع پر ان صفات کو بروئے کار لاکر بڑے بڑے چیلنجوں کا مقابلہ کیا۔