بچوں کو محبوب صفت بنائیں

260

مردانگی، سادگی، جرأت وشجاعت کی تربیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان ایسا خشک ہوجائے کہ کسی سے محبت ہی نہ کرے، ایسا سخت دل ہوجائے کہ کسی کے لیے اس کا دل پسیجے ہی نہیں۔ بلکہ صحیح یہ ہے کہ اسلامی تربیت کا فیض یافتہ مسلمان ایسی شخصیت کا مالک ہوتا ہے کہ لوگ اس سے ملنے کے مشتاق ہوتے ہیں، اس کی گفتگو کو غور سے سنتے ہیں، اس کی خیرخواہی اور اس کی مخلصانہ محبت پر اطمینان رکھتے ہیں۔ اسی لیے وہ کچھ بولتا ہے تو لوگ اس کے لیے ہمہ تن گوش ہوجاتے ہیں، وہ کسی بات کی دعوت دیتا ہے تو اس کی صدا پر لبیک کہتے ہیں، اپنے ذاتی نازک معاملات میں اس پر اطمینان کرتے ہیں، وہ آجائے تو مثلِ پروانہ اس کے گرد جمع رہتے ہیں، نہ ملے تو اس کے منتظر رہتے ہیں۔
دوسری طرف دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ لوگ ان سے ملنا ہی نہیں ان کا نام لینا گوارا نہیں کرتے، انھیں سخت مزاج، متکبر اور بداخلاق جانتے ہیں، کوئی ان سے محبت نہیں کرتا، کسی مجلس میں جاپہنچیں تو لوگوں کو ان کا وجود ناگوار گزرے، نہ آئیں تو لوگ شکر منائیں، اس لیے کہ وہ ہر ایک سے بداخلاقی، بدسلوکی اور تکبرکے ساتھ پیش آتے ہیں، یقینا ایسا انسان اللہ اور اللہ کے بندوں کی نگاہ میں قابلِ مذمت و ناپسندیدہ ہے۔
مربیوں کے اقوال وافعال بچوں اور نوجوانوں کے اخلاق پر بہت اثر ڈالتے ہیں، مثبت بھی اور منفی بھی، جس مربی کے اقوال وافعال مثبت اثرات ڈالیں وہ اپنے زیر تربیت فرد کی ہر نیکی میں شریک اور اس پر ثواب کا مستحق ہے، لیکن جو مربی اپنے برے اقوال وافعال سے بچے یا نوجوان پر غلط اثرات ڈالے، اس کے اندر برائیاں پیدا کرے تو ایسا مربی اس بچے یا نوجوان کی برائیوں کا ذمے دار اور گناہ گار ہے۔
رسول اکرمؐ کے اخلاق کا کیا کہنا؟ لیکن آپؐ سے بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابِ پاک میں فرمایا تھا: ’’اگر تم سخت دل اور سخت مزاج ہوتے تو یہ لوگ تم سے دور ہوجاتے‘‘۔ (آل عمران: 159) اور آپ کو ایسے طریقے کی راہنمائی کی تھی جس کے ذریعے آپ کی شخصیت اپنے صحابہ ومتبعین کی نگاہ میں مزید محبوب ودلربا بنے، ارشاد فرمایا تھا: ’’اور جو لوگ ایمان لے آئے ہیں ان کے لیے اپنی شفقت کا بازو پھیلادو‘‘۔ (الحجر: 88)
اہل ایمان کی باہمی محبت، جس کا وہ ایک دوسرے سے اظہار کریں یا نہ کریں، اللہ کی خاطر کی جانے والی اس محبت کا ایک مظہر ہے جو مومنین کو ایک لڑی میں پروتی ہے، اور جو ان کا اس دنیا میں امتیازی وصف ہے، مومنین کے علاوہ اس دنیا میں جتنے لوگ بھی بستے ہیں ان کی لوگوں سے محبت دنیوی منافع، ذاتی خواہشات یا فطری رجحانات کی وجہ سے ہوتی ہے، جب کہ اہل ایمان کے یہاں لوگوں سے محبت اللہ کی خاطر ہوتی ہے۔
رسول اللہؐ اپنے صحابہ کو اس کی تاکید فرماتے رہتے تھے، مثلاً ابوذرؓ سے آپ نے فرمایا تھا: ’’کسی نیکی کو حقیر مت جاننا، کسی شخص سے مسکرا کر ملنے کو بھی‘‘۔ (مسلم)
آپؐ اپنے صحابہ کو خوش کلامی اور نرم گفتاری کی تاکید فرماتے، بتاتے کہ یہ جہنم سے نجات دلانے والا عمل ہے، ایک مرتبہ فرمایا: ’’جہنم کی آگ سے بچنے کی کوشش کرو، زیادہ کچھ نہ کرسکو تو کھجور کا ایک ٹکڑا ہی صدقہ کردو، جو اس کی بھی گنجائش نہ پائے اسے یاد رکھنا چاہیے کہ اچھی گفتگو بھی جہنم کی آگ سے بچاتی ہے‘‘۔ (بخاری، مسلم) آپؐ نے اچھی اور نرم گفتگو کو باعث ثواب واجر بتایا ہے، آپ کی حدیث ہے: ’’اچھی گفتگو ایک نیکی ہے‘‘۔ (بخاری)
ہمیں تربیت کے ان اصولوں کو سمجھنا چاہیے، اپنی اولاد کو ان اسلامی اخلاق سے آراستہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جو عظیم قومیں تشکیل دیتے ہیں، یہ اخلاق ہیں: ہمت، بہادری، حق کی خاطر جرأت، محبت، خیر کے کاموں میں تعاون، استطاعت ہو تو ایسے کاموں کو انجام دینا، اچھے کاموں کو انجام دینے سے قاصر ہوں تو کم از کم اچھی گفتگو۔ عربوں کے یہاں یہ زریں قولِ حکمت بہت معروف رہا ہے: ’’نیکی کمانے کا طریقہ بہت آسان ہے: خنداں پیشانی اور نرم گفتاری‘‘۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں چیزیں کچھ مشکل نہیں۔ ترجمہ: الیاس احمد نعمانی
OOO