معذوری نہیں بحالی

507

صحت بلاشبہ عظیم ترین نعمت ہے، جس کی حفاظت ہر انسان کو کرنی چاہیے۔ ہماری معاشرتی زندگی کے کئی عوامل صحت کی حالت سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان دنوں لاہور بدترین فضائی آلودگی کا مرکز بنا ہوا ہے، فضائی آلودگی کے مضر اثرات ماہرین طب کے مطابق بے شمار بیماریوں کے پھیلائو کو ہوا دے رہے ہیں۔ جدید سرمایہ دارانہ نظام نے مشینوں کی حکومت قائم کرنے کے لیے ہمارے اطراف کیمیکلز کا ایسا جال بچھایا ہے کہ انسان سے لے کر فضا تک سب تباہ ہو گیا ہے۔ ایسے اعداد وشمار کے باوجود ہماری کوئی حکومت اپنے وعدوں اور دعوئوں کے باوجود سنجیدہ، لانگ ٹرم اقدامات کی جانب نہیں جا رہی، نہ موجودہ نہ ماضی کی حکومت۔ شجرکاری بلاشبہ بہت ضروری ہے، مگر ایک زرعی ملک میں اہم اگر اپنی زراعت کا حال ہی دیکھ لیں، تو ساری حکومتی سنجیدگی کا اندازہ ہو جائے گا۔ بالکل ایسی ہی عدم توجہی صحت عامہ کے ساتھ بھی رکھی گئی ہے۔ آپ کورونا یا ڈینگی کے حوالے سے حالیہ اقدامات کو قطعاً صحت عامہ کے عمومی اقدامات میں مت شمار کیجیے گا، یہ سب ہنگامی اقدامات تھے جو بہرحال وقتی فائدہ دے گئے، مگر پالیسی اور لانگ ٹرم منصوبہ بندی یا کم از کم اپنے منشور کے وعدوں کی تکمیل بالکل ہی الگ بات ہے۔ جتنا پیسہ حکومت نے کورونا کے نمائشی اقدامات پر لگایا اس کا 50فی صد بھی صحت عامہ کی آگہی کے لیے لگا دیے جاتے، تو کئی لاکھ پاکستانی معذوری سے بچ سکتے ہیں۔
انسانی صحت کی ایک بدترین حالت معذوری کی ہے جو انسان کو روزمرہ کے عمومی کام کرنے سے قاصر کر دیتی ہے۔ اگر کوئی چلنے، دیکھنے، بولنے، سننے، بات سمجھنے یا اپنے جسم کو پوری طرح حرکت نہ دے سکے، تو ہم اس کو معذوری کی حالت کہتے ہیں۔ معذوری دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک جسمانی اور دوسری دماغی یا ذہنی جس میں انسان کا انٹی لیکچوئل نہایت کم ہو جاتا ہے۔ ان افراد کی بحالی کے لیے الگ مراکز و اسکول موجود ہوتے ہیں، لیکن ایسے مریضوں کی کیٹیگری مختلف ہوتی ہے۔ معذوری اس وقت دنیا کا بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے کہ دنیا کے ایک ارب افراد مختلف قسم کی معذوری کا شکار ہیں۔ پاکستان میں بھی کوئی 85لاکھ افراد معذوری کی حالت میں ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے بھی اپنے کاموں میں دنیا سے معذوری ختم کرنے کا ایک ہدف مقرر کیا ہے۔
پاکستان میں جسمانی معذوری کی سب سے بڑی وجہ فالج بن چکی ہے۔ یہ اتنی تیزی سے پھیلتی بیماری ہے جو پاکستان میں روزانہ ایک ہزار افراد پر حملہ آور ہو رہی ہے۔ فضائی آلودگی فالج کے حملے کی ایک اہم وجہ بن چکی ہے۔ اس کے بعد پاکستان میں ہر سال دس لاکھ افراد مختلف حادثات کا شکار ہو رہے ہیں، جن میں سے ایک لاکھ افراد معذور ہو جاتے ہیں۔ تیسری اہم وجہ بچوں کی پیدائش کے موقع پر ہوتی ہے۔ جماعت اسلامی الحمدللہ زندگی کے ہر دائرے میں کام کر رہی ہے۔ صحت عامہ سے متعلق بھی جماعت اسلامی کی پالیسی موجود ہے۔ ان پالیسیوں کی تیاری کے دوران کئی ماہر و سینئر ڈاکٹرز نے ہمیں بتایا کہ کئی لاکھ افراد کو معذور ہونے سے بچایا جا سکتا ہے یاکئی لاکھ معذور افراد کو خاص تربیت سے گزار کر معاشرے کے لیے کارآمد بھی بنایا جا سکتا ہے۔ اس وقت کوئی پانچ لاکھ افراد پاکستان میں نابینا شمار کیے جاتے ہیں، جن میں سے کئی افراد مختلف شعبہ ہائے زندگی سے جڑے ہیں اور معاشرے کا اہم حصہ ہیں۔ اسی طرح قوت سماعت و گویائی سے محروم افراد اپنی سائن لینگوئج (اشاروں کی زبان) کی بدولت معاشرے کا حصہ بن جاتے ہیں۔
صورت حال یہ ہے کہ معذور افراد تک وہیل چیئر یا چھڑی تک رسائی بھی مسئلہ بن چکی ہے۔ ہماری کئی بلڈنگ، دفاتر، سرکاری دفاتر کو کم از کم ایسی منصوبہ بندی کرنی چاہیے کہ وہاں معذور افراد کی رسائی ممکن ہو، اگر صرف بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ادارے اس بات کو یقینی بنائیں کہ کسی عمارت، پارک، ہوٹل میں معذور افراد کے بآسانی داخلے کی سہولت لازمی رکھی جائے، ان کے لیے ریمپ بنائے جائیں، خصوصی واش رومز بنائے جائیں تو یہ بھی بہت مثبت رجحان پیدا کرے گا۔ معذور افراد کو فنڈز دیے جا سکتے ہیں، کاروبار کرنے کے لیے، نوکریاں دی جا سکتی ہیں، تعلیم کی سہولت یعنی کم از کم سیکنڈری سطح کی تعلیم لازمی حاصل کر سکیں۔
عالمی ادارہ صحت نے اس حوالے سے جو رہنمائی دی اس پر حکومت نے اسلام آباد میں کمیشن قائم کیے، مگر متعلقہ لوگوں تک اس کمیشن کی معلومات ہی نہیں ہے۔ 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کا معاملہ قرار دے کر وفاق نے تو صحت سے کندھے جھاڑ لیے، صوبوں نے تاحال کوئی ایسی قابل ذکر ہیلتھ پالیسی بنائی ہی نہیں کہ جس میں وہ معذوروں کے لیے کچھ کر سکیں۔ معذوروں کا مسئلہ صوبائی وزارت صحت کے بجائے وزارت سوشل سیکورٹی کے تحت کر دیا گیا۔ یہ ضرور ہوا ہے کہ قومی اسمبلی نے معذور افراد کے لیے کئی قانون منظور کیے، مگر نہ ہی اس کے بارے میں معذور افراد کو معلومات پہنچ سکی ہیں، نہ ہی ان کے اہل خانہ کو جو ان کو قانونی حقوق و سہولتیں دلوا سکیں، کیوںکہ معذور افراد کی ایک بڑی تعداد دیہی آبادی میں شامل ہے۔ مردم شماری میں معذور افراد کا ڈیٹا جمع ہوتا ہے، نادرا کی جانب سے خصوصی کارڈ بھی جاری کیا جاتا ہے، لیکن چیک اینڈ بیلنس کا نظام نہ ہونے کے سبب بڑے پیمانے پر خرابیاں جگہ بنا چکی ہیں۔ اس پر عمل درآمد وفاق و صوبوں سب کو کرنا ہے، مگر یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ ان قوانین پر عمل کون کرے گا کون پوچھے گا اور کون عمل کرائے گا؟
میں نے ابتدا ہی میں دلچسپی و سنجیدگی کی بات کی جو کسی ایک حکومت کی نہیں بلکہ سابقہ تمام حکومتوں کے لیے تھی۔ اب جب یہ بات واضح ہے کہ معذور افراد کو بحال کر کے معاشرے کا موثر فرد بنایا جا سکتا ہے، تو آپ کو جان کر حیرت ہو گی پاکستان میں معذور افراد کی بحالی کے لیے صرف دو بحالی مراکز ہیں۔ ایک کراچی میں سول اسپتال کے ساتھ جو زلزلہ 2005ء کے بعد بنایا گیا اور دوسرا پنڈی میں پاک فوج کا اپنا ادارہ ہے۔ ایسے حال میں جہاں صرف فالج کی وجہ سے ایک ہزار افراد روزانہ بستر پر آتے ہوں، ضرورت تو اس امر کی ہے کہ فی الفور ہر اسپتال کے ساتھ کم از کم ایک بحالی مرکز تو بننا ہی چاہیے۔ معذوری کے عالمی دن کے موقع پر میرا تو یہی سمجھنا ہے کہ ہمیں ایک ایسا نظام بنانا چاہیے کہ لوگ معذور ہی نہ ہوں اور اگر ہو جائیں تو ان کی سپورٹ و تربیت و معاونت کا ایسا جامع نظام ہو جو انہیں کسی طور پر ڈپریشن یا مایوسی کا شکار ہو کر گھر بیٹھنے پر مجبور نہ کرے۔ اگر اپنے ایسے بچوں کو ہم اچھی توجہ کے ساتھ خاص تربیت سے گزاریں تو ضرور وہ اپنی دیگر جسمانی و دماغی صلاحیتوں کے سبب بہتر زندگی گزارنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔